پشاور کہانی: بڑے شہر کا خواب


خیبرپختونخوا کے سب سے زیادہ آبادی والا ضلع ’پشاور‘ بدستور ”وبائی امراض“ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ پشاور میں صوبے کے دیگر اضلاع سے عارضی و مستقل نقل مکانی کرنے والوں کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے جبکہ حالیہ سیلاب نے اِس نقل مکانی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اِس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور میں علاج  کی سہولیات کی فراہمی کا نظام مزید علاج گاہوں اور تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کے قیام کے ذریعے توسیع چاہتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ صوبائی دارالحکومت دیگر اضلاع کی نسبت کورونا وبا کے بھی سب سے زیادہ کیسز اور اموات ہوئی ہیں جبکہ ڈینگی ہیمرہیجک بخار کے علاوہ پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے بھی پشاور سرفہرست ہے۔ پشاور میں صوبے کے دیگر حصوں سے لوگ سرکاری و نجی کام کاج‘ کاروبار یا ہسپتالوں میں علاج کے سلسلے میں آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں وبائی امراض (انفیکشنز) نسبتاً زیادہ ہے۔ پشاور میں وبائی امراض کی زیادہ تعداد کا تعلق تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) سے بھی ہے جہاں پشاور کے علاوہ دیگر اضلاع سے نمونے ارسال کئے جاتے ہیں اور اُن کے نتائج پشاور میں وبائی امراض کے طور پر درج ہوتے ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے مجموعی طور پر 6 ہزار 354 ہلاکتیں ہوئی جبکہ اِن میں 3ہزار 140اموات کا تعلق پشاور سے ہے۔ اِسی طرح صوبے بھر میں 2 لاکھ 23ہزار 630 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جن میں سے 84 ہزار 569 مریضوں کا تعلق ضلع پشاور سے رہا۔ پشاور میں کورونا وبا سے ہونے والی زیادہ اموات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر اضلاع کی نسبت پشاور میں صحت کی سہولیات نسبتاً بہتر شکل و صورت میں دستیاب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تیمارداروں کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو جلدازجلد پشاور کے مرکزی ہسپتالوں تک پہنچائیں۔ دوسرا محرک ضلعی سطح پر ہسپتالوں سے مریضوں کو پشاور بھیجنا (ریفر کرنا) بھی ایک معمول ہے اور اِس کی وجہ سے پشاور کے تینوں بڑے سرکاری ہسپتالوں (لیڈی ریڈنگ‘ خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد کمپلیکس) پر غیرمقامی مریضوں کا دباؤ رہتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں صحت کا نظام جب تک اضلاع کی سطح پر مضبوط‘ وسیع اور فعال نہیں کیا جائے گا اُس وقت پشاور کے وسائل پر دباؤ رہے گا۔پشاور میں کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ماضی کی طرح حال میں بھی زیادہ ہے۔ فی الوقت پشاور میں کورونا سے 689 مریض متاثر ہیں اِن میں 309 فعال کورونا کیسز ہیں جن کا باقاعدگی سے علاج معالجہ ہو رہا ہے۔ اِسی طرح پشاور میں 19 ایسی تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) ہیں جہاں کورونا وبا کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے اور اِن لیبارٹریز میں صرف پشاور نہیں بلکہ دیگر اضلاع سے نمونے ٹیسٹنگ کے لئے ارسال کئے جاتے ہیں۔ صرف خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری نے صوبے میں ہوئے کل 50لاکھ 35 ہزار 49 ٹیسٹوں میں سے ’نوے فیصد‘ سرانجام دیئے۔ کورونا وبا کے علاوہ پشاور میں پائی جانے والی دوسری خطرناک بیماری پولیو ہے اور یہ بیماری (پولیو میلائٹس) صحت عامہ کے فیصلہ سازوں کے لئے کسی درد سر سے کم نہیں۔ پولیو کے انسداد کے حوالے سے گزشتہ بیس برس (دو دہائیوں) کے دوران کی جانے والی کوششوں (مہمات)  کے باوجود یہ خطرہ بدستور موجود  ہے  اور ضلع پشاور سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا جس کی ایک وجہ یہاں نقل مکانی ہے۔ پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری والدین کی تعداد بھی صوبے کے کسی بھی دوسرے ضلع کی نسبت زیادہ رہی ہے! حال ہی میں ختم ہونے والی پولیو مہم کے حوالے سے ایک رپورٹ میں جو اعدادوشمار دیئے گئے اُن کے مطابق پشاور میں 20 ہزار 274 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے جن میں 7 ہزار 204 ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کے والدین نے اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے روک دیا جبکہ مذکورہ رپورٹ میں پشاور کے 13ہزار 70 ایسے بچوں کا ذکر بھی کیا گیا جو انسداد پولیو مہم کے دوران اپنے گھروں پر موجود نہیں تھے اور ایسے ’غائب‘ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی پشاور دیگر اضلاع کے مقابلے سرفہرست ہے! پولیو کے غیر ویکسین شدہ بچے یوں تو ہر ضلع میں موجود ہیں لیکن اِن کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پشاور سے ہونا اِس لحاظ سے بھی تشویشناک ہے کہ ایک تو پولیو کا وائرس پھلتا رہتا ہے اور دوسرا چونکہ دیگر اضلاع سے پشاور آمدورفت کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اِس لئے پولیو وائرس کی پشاور آمد اور یہاں سے دیگر اضلاع منتقلی کا عمل جاری ہے! پشاور کے وبائی امراض میں کورونا اور پولیو کے بعد ’ڈینگی بخار‘ کا نمبر آتا ہے۔ اِس وبا نے بھی محکمہئ صحت کے صوبائی اور ضلعی فیصلہ سازوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور ’ڈینگی‘ کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے زیادہ متاثر ہے۔ سال 2017ء میں ڈینگی وبا پھیلنے سے پشاور میں بیس ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے اور اِن کے ’ڈینگی ٹیسٹ‘ مثبت آئے تھے جن میں سے کم از کم 70 افراد کی موت بھی ڈینگی ہی سے ہوئی تھی جبکہ رواں سال (دوہزار بائیس کے دوران) خیبرپختونخوا میں اگرچہ مچھروں سے پھیلنے والی کسی بھی بیماری سے اموات ریکارڈ نہیں ہوئی تاہم کل 1972کیسز میں سے پشاور کا حصہ 111 ہے جبکہ دیگر زیادہ متاثرہ اضلاع میں مردان (783)‘ (قبائلی ضلع) خیبر (420)‘ نوشہرہ (193) اُور ہری پور (182) شامل ہیں۔ وبائی امراض کا مقابلہ کرتے ہوئے پشاور میں فضائی آلودگی کی بلند (خطرناک) سطح پر بھی غور ہونا چاہئے جس کی وجہ سے مختلف وبائی امراض پیچیدہ شکل اختیار کرتی ہیں جبکہ گلے‘ سانس‘ آنکھوں اُور جلد (اسکن) کے امراض بھی پشاور میں دیگر اضلاع کی نسبت زیادہ ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ایک وقت پشاور پھولوں کا شہر کہلاتا تھا جو ’وبائی امراض کا مرکز‘ بن چکا ہے اور یہ صورتحال جامع منصوبہ بندی اور عملی اقدامات پر مبنی حکمت عملی کی متقاضی ہے۔