انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔اپنے ساتھ دوسری کئی خرابیاں بھی لاتی ہے۔ حالیہ طوفانی بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ اس کے آفٹر شاکس آنا شروع ہوگئے۔سندھ اور بلوچستان میں متاثرین ابھی تک ریسکیو کے منتظر ہیں تاہم خیبر پختونخوا میں ریسکیو آپریشن مکمل ہوا ہے متاثرین کی امداد اور بحالی کا طویل المیعادمرحلہ شروع ہونے جا رہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ پہاڑی علاقوں سے زہریلے سانپ اور دیگر خطرناک جانور سیلابی ریلے میں بہہ کر میدانی علاقوں میں آگئے ہیں ان زہریلی چیزوں نے چارسدہ اور نوشہرہ میں دریا کنارے بسیرا کر لیا ہے۔ابھی اس خطرے کی صدائے باز گشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ محکمہ صحت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے کے خطرے کا الرٹ جاری کردیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں تپ دق، خناق، تشنج،یرقان،کالی کھانسی، پولیو، دست و اسہال،خسرہ اور روبیلا کی بیماریاں پھیل سکتی ہیں ان بیماریوں سے بچے اور بوڑھے افراد زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کا انفرسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے،گدلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ متاثرہ علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں جانور بھی سیلاب سے ہلاک ہوئے ہیں جن میں گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکریاں، کتے،بلیاں اور جنگلی جانور بھی شامل ہیں ان سڑی ہوئی لاشوں کی وجہ سے تعفن پھیلا ہوا ہے جو کئی وبائی امراض کا موجب بن سکتا ہے۔
سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرنے کا مرحلہ تو جیسے تیسے مکمل ہوا ہے تاہم متاثرین کو وبائی امراض سے بچانے، انہیں خوراک، صاف پانی اور جان بچانے والی ادویات کی فراہمی کا نسبتاً مشکل مرحلہ اب شروع ہوا ہے۔اس کام میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا گیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے سیلاب کے آفٹر شاکس کے مہلک خطرات کے تدارک کیلئے تمام سرکاری، غیرسرکاری اداروں، فلاحی تنظیموں، سول سوسائٹی اور رضاکاروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
دیکھا جائے تو ماضی میں بھی قوم نے بڑے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے اور اس وقت بھی جس قومی جذبے اور یگانگت کے ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام جاری ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جلد معمول کی زندگی بحال ہوجائے گی اور متاثرین کی داد رسی اور بحالی کا مرحلہ کامیابی سے تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ تاہم اس دوران سیلاب کے نتیجے میں جو ضمنی نقصانات ہوتے ہیں ان سے بچاؤ کی بھر پور کوشش کرنا ہوگی۔یعنی اس وقت تمام ممکنہ مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحالی کے کاموں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی تاکہ ان کا بروقت تدارک ہو۔