بڑا خطرہ

خیبرپختونخوا کا قبائلی ضلع ’شمالی وزیرستان‘ میں سترہ ماہ کا ایک بچہ ”وائلڈ پولیو“ جرثومے سے متاثر ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا جبکہ مذکورہ ضلع سے قریبی ضلع میں ایک اور بچہ پولیو کے باعث دائمی معذور ہو چکا ہے۔ رواں برس (دوہزاربائیس) کے دوران خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع سے یہ 14واں پولیو کیس منظرعام پر آیا ہے۔ دو ستمبر کے روز ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘ نے تصدیق کی تھی کہ پولیو سے متاثر ہونے والے بچے کو ’یکم اگست‘ سے فالج ظاہر ہوا ہے۔

 اِسی طرح خیبرپختونخوا ہی کے ایک اور ضلع ’لکی مروت‘ سے بھی پولیو کا ایک کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی پولیو کے خلاف جنگ ختم نہیں ہوئی‘ جس کا نشانہ بچے ہیں! رواں برس جو پولیو کیسز سامنے آئے اُن میں دو سال سے کم عمر بچے متاثر ہوئے ہیں۔ لائق توجہ بات یہ ہے کہ ’انسداد پولیو مہمات‘ ماسوائے پاکستان پوری دنیا میں کارگر و کامیاب ثابت ہوئی ہیں اور 99فیصد دنیا اب پولیو سے پاک ہے۔

 پولیو صرف پاکستان اور افغانستان میں باقی ہے۔ انتہائی خراب موسمی حالات اور سیلاب کے باوجود‘ پاکستان پولیو پروگرام جاری ہے اور اِس سلسلے میں بائیس اگست کو ’پولیو مہم‘ کا آغاز کیا گیا جبکہ پولیو ورکرز شدید بارشوں اور سیلابوں کو برداشت کرتے ہوئے تمام قابل رسائی علاقوں میں بچوں تک پہنچے۔ آٹھ اگست تک پاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کے چودہ کیسز تھے۔ یہ سال دوہزاراکیس کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے سال دوہزاراُنیس سے پہلے‘ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی اُمید کی جا رہی تھی۔ جنوری دوہزارسترہ سے دوہزاراٹھارہ کے وسط تک کئی مہینوں تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ پولیو کے کیسز سامنے آنے لگے۔

پولیو مائیلائٹس (پولیو) انتہائی متعدی وائرل بیماری ہے یعنی یہ کسی ایک متاثرہ بچے سے  دوسرے بچوں میں منتقل ہو کر تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ اورل ٹرانسمیشن کے ساتھ آلودہ پانی اور غیرمعیاری خوراک کے ذریعے بھی پولیو کی بیماری پھیل سکتی ہے اگرچہ پولیو کے زیادہ تر کیسز غیر علامتی ہوتے ہیں لیکن یہ وائرس فالج یا موت کا سبب بن سکتا ہے! پولیو ناقابل علاج نہیں لیکن اِس متعدی بیماری کو محفوظ اور مؤثر ویکسین کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔

 منہ کے ذریعے قطروں کی صورت دی جانے والی پولیو ویکسین یا انجکشن کے ذریعے پولیو ویکسین کسی بچے کی زندگی بھر حفاظت کے لئے کافی ہوتی ہے تاہم پولیو کے خلاف غلط فہمی کی بنیاد پر اِس سے انکار کیا جاتا ہے۔پولیو کے پھیلاؤ سے متعلق خبریں اچھی نہیں۔ پولیو سے متاثرہ دو سالہ بچے کی موت اور دوسرے کی تاحیات معذوری انتہائی بُری خبریں ہیں جو ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہیں اور خیبرپختونخوا دنیا میں پولیو جرثومے کا سب سے بڑا مرکز (متاثرہ خطہ) بنا ہوا ہے تو یہ خبر بھی اپنی جگہ ہر خاص و عام کے لئے پریشانی کا باعث ہونی چاہئے۔

 پاکستان میں رواں سال پولیو کے کیسز کی تعداد سترہ تک جا پہنچی ہے‘ جن میں زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ عام تصور کے برعکس پولیو وائرس نہ صرف ٹانگوں کے پٹھے کمزور کرنے کی صورت حملہ آور ہوتا ہے بلکہ سانس لینے کے پٹھوں کو بھی مفلوج کر سکتا ہے۔ شیر خوار بچوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ پولیو نوعمروں اور یہاں تک کہ بوڑھے لوگوں پر بھی حملہ کر سکتا ہے اگر انہوں نے پولیو کے قطرے پلانے کا مکمل کورس نہ کروایا ہو۔ اگرچہ پاکستان میں ’پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (PEI)‘ ملک بھر میں شیر خوار بچوں اور بچوں کو قطرے پلانے کے لئے کوششیں کر رہا ہے لیکن نئے کیسز کی تصدیق نے انسداد پولیو کی کوششوں کو درپیش چیلنجوں کو ایک بار پھر اُجاگر کیا ہے۔

 پولیو کیسز کی چھان بین اور رپورٹنگ اب انتہائی اہمیت کی حامل ہو گئی ہے‘ ایسا نہ ہو کہ یہ پاکستان کے لئے کسی بڑے بحران کی شکل اختیار کر لے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح‘ خیبرپختونخوا کے چند اضلاع میں والدین تک انسداد پولیو کا پیغام پہنچنا چاہئے تاکہ اُن کے انکار کو اقرار میں تبدیل کیا جا سکے۔ اِس سلسلے میں صوبائی حکومت کو پولیو کے مہلک اثرات بارے بڑے پیمانے پر ’بیداری مہم‘ شروع کرنی چاہئے۔ اس مہم میں واضح کیا جائے کہ پولیو سے بچاؤ کا واحد راستہ ویکسینیشن ہے۔ پولیو ویکسینیشن کے دوران ایسے معاملات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں دیہی و قبائلی علاقوں میں مقیم والدین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے بچوں پولیو ویکسین کی پہلی خوراک لگانے کی اجازت دی لیکن دوسری خوراک جو یکساں ضروری اور اہم ہوتی ہے اُسے لگوانے سے انکار کر دیا۔

 بیداری مہم کے ذریعے اس بات کو تقویت دینے کی ضرورت ہے کہ بچوں کے لئے معمول کے مطابق حفاظتی ٹیکہ جات انتہائی ضروری ہیں اور پاکستان کو بہرصورت پولیو وائرس کے خاتمے اور مؤثر طریقے سے اِس کی روک تھام کے قابل ہونا چاہئے۔ صحت عامہ کے بارے میں عمومی روئیوں کی تبدیلی کے لئے ’کمیونیکیشن‘ کا سہارا لینا چاہئے تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پولیو ٹیمیں جن دروازوں پر دستک دیں وہاں سے اُنہیں انکار سننے کو نہ ملے اور یکساں اہم ہے کہ بچوں کو زندگی کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ پاکستان میں پولیو وائرس کا سراغ لگانے کے لئے نیٹ ورک کو بھی مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ پولیو کیسز کی نشاندہی ہونے کے ساتھ ہی متاثرہ علاقوں میں فوری ویکسینیشن شروع کی جا سکے۔ اب تک بلوچستان‘ پنجاب اور سندھ کے درجنوں اضلاع میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کے ہمراہ بچوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کا اندیشہ ہے۔