سیلاب کے بعد ناران میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں سیاح خوف کی وجہ سے جانے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے ہوٹل مالکان پریشان ہیں اور میڈیا کے ذریعہ روٹھے اور ڈرے ہوئے سیاحوں کو واپس لانے کے لیے کوشاں ہیں مگر یہ کام اتناآسان بھی نہیں سیاحوں کے اعتماد کی بحالی اور ان کاخوف دورکرنے میں بہت وقت لگے گا اس بار بھی صوبہ کے شمالی علاقے سیاحوں کی توجہ کامرکز بنے رہے اوربہت بڑی تعداد میں سیاحوں نے ہزارہ اور ملاکنڈ کی حسین وادیوں کارخ کیا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس بار عیدین اور جشن آزادی کے موقع پر ان علاقوں کی سیاحت کرنے والوں کی تعداد چارملین کے لگ بھگ رہی اگرہم عید الفطر کی بات کریں توعید کی چھٹیوں کے دوران سیاحوں کی بڑی تعداد نے صوبہ کے سیاحتی مقامات کارخ کیا عید کے تیسرے دن پیربابا مزار پر زائرین اور سیاحوں کا رش رہا بونیر کے روحانی اور سیاحتی مرکز پیر بابا میں سیکورٹی کے بہترین اقدمات اور ٹریفک پلان کی بدولت 18 ہزار تک گاڑیاں داخل ہوئیں یوں صرف پیر بابا کے مزار اور ملحقہ علاقوں میں 80 ہزار کے قریب سیاح آئے اسی طرح ضلع شانگلہ میں کم وبیش دوہزار گاڑیاں ضلع میں داخل ہوئیں جن میں آنے والے بیس ہزار سیاحوں نے شانگلہ ٹاپ اوردیگر مقامات پر بہت اچھا وقت گذارا۔ضلع سوات کی انتظامیہ کے مطابق آٹھ لاکھ تک سیاح سوات میں داخل ہوئے جہاں پر انہوں نے ملم جبہ،کالام،مدین،بحرین،گبین جبہ اوردیگر سیاحتی مقامات پر وقت گذارا اور مقامی معیشت میں اربوں روپوں کااضافہ کیا۔ دیربالا اور کمراٹ جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار رہی،اسی طرح دیر پائیں کی سیاحت سے ایک لاکھ 45ہزارسیاح محظوظ ہوئے چترال لوئر جانے والوں کی تعداد اٹھاون ہزار جبکہ چترال لوئر جانے والوں کی تعداد تین ہزار ریکارڈ کی گئی یوں صرف ملاکنڈڈویژن جانے والے سیاحوں کی تعداد ساڑھے بارہ لاکھ سے زائد رہی دوسری طرف سرکاری ذرئع کے مطابق گلیات جانے والوں کی تعدادتین لاکھ تک تھی گلیات میں سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے وہاں بھی اربوں روپے کالین دین ہوا سرکاری ذرائع کے مطابق ایک لاکھ سیاحوں نے وادی کاغان کی سیاحت کی اورکروڑوں روپے کی کاروباری سرگرمیاں ہوئیں بعد ازاں عید الاضحی کے موقع پر اگرچہ میدانی علاقوں میں موسم خاصا خوشگوارتھا اس کے باوجود عیدکے پہلے تین دن تک چھ لاکھ سے زائد سیاح مختلف مقامات کارخ کرچکے تھے اعدادوشمار کے مطابق وادی کاغان میں ساڑھے پندرہ ہزار سے زائد گاڑیاں اور ساڑھے سولہ سو سے زائد موٹرسائیکلیں داخل ہوئیں یوں ایک اندازے کے مطابق تین دن میں مزید 80ہزار کے لگ بھگ سیاح وادی کاغان کارخ کرچکے تھے جی ڈی اے کے ذرائع کے مطابق تین دن میں کم وبیش ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سیاح گلیات کارخ کرچکے تھے دیر بالا جانے والوں کی تعداد 66ہزار، ملم جبہ جانے والوں کی تعدا د 34ہز ار اور چترال کارخ کرنے والوں کی تعداد چودہ ہزار سے زائد رہی۔ ایک اندازے کے مطابق کالام کارخ کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد رہی۔اسی طرح جب محرم الحرام میں چارچھٹیاں ایک ساتھ آئیں تو سیاحتی مقامات پر ریکار ڈ رش رہاا ور کم وبیش دس لاکھ سے تک سیاح مختلف علاقوں کی سیاحت سے محظوظ ہوئے سیا حتی مقامات پر پانچ سے نو اگست تک زبردست رش رہا۔ہفتہ اتوار اور کے ساتھ ساتھ پیر اور منگل کو محرم الحرام کی تعطیلات کے باعث سیاحوں کی بڑ ی تعدادنے صحت کاافزاء کامقامات کارخ کیا سیاحوں کی آمد کے سلسلہ میں ملاکنڈ ڈویژن ٹاپ پررہا جہاں کم وبیش ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں نے پانچ اگست سے نو اگست تک کے پانچ دنوں کے دوران قیام کیا۔ صرف سوات کارخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد تین لاکھ رہی سوات جانے والوں نے ملم جبہ اور کالام میں قیام کیا پانچ دن کے دوران لاکھ سے زائد سیاحوں نے ضلع چترال بالا کا بھی رخ کیا۔ان میں دوسو غیر ملکی سیاح بھی شامل ہیں دیر اپر میں کمراٹ اوردیگر مقامات کی سیاحت کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار ہی۔دیر لوئر میں فشنگ ہٹ اور لڑم ٹاپ سے محظوظ ہونے والوں کی تعداد پندرہ ہزاررہی جبکہ دس ہزار سے زائدسیاحوں نے شانگلہ کابھی رخ کیا۔یکم اگست سے آٹھ اگست تک وادی کاغان میں 25ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہوئیں یوں ایک ا ندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ لوگوں نے یہاں کارخ کیا پانچ سے نو اگست تک گلیات میں سیاحوں کی کم وبیش پچاس ہزار گاڑیاں داخل ہوئیں جن کے ذریعہ تین لاکھ تک سیاحوں نے علاقہ کی سیاحت کی اسی طرح جشن آزادی کے موقع پر بھی بڑی تعدادمیں سیاحوں نے تفریحی مقامات کارخ کیا۔سوات،گلیات اور وادی کاغان جانے والوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد رہی اسی طرح تیرہ اگست گلیات میں 6252گاڑیوں کے ذریعہ 31ہزار جبکہ چودہ اگست کو 14000گاڑیوں کے ذریعہ 65ہزار سے زائد سیاح داخل ہوئے یوں دو دن میں گلیات جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک رہی سوات سے موصولہ اطلاعات کے مطابق دودن میں ایک لاکھ سے زائد سیاحوں نے علاقہ میں مختلف علاقوں میں قیام کیا۔تیرہ اگست کو وادی کاغان میں 2773گاڑیاں اور 150 موٹرسائیکلیں داخل ہوئیں جبکہ چودہ اگست کو 3022گاڑیاں اور 550موٹرسائیکلیں علاقہ میں داخل ہوئیں یوں ان دو دنوں میں تیس ہزار سے زائدسیاحوں نے کاغان اورناران میں سیاحت کی صوبہ کے ان تین اہم سیاحتی مقامات پر محض دو دن میں اڑھائی لاکھ لوگوں نے قدرت کے حسین نظاروں کالطف اٹھا یا۔گویا محض ان مخصوص ایام میں چالیس لاکھ سے زائد لوگوں نے خوبصورت مقامات کی سیاحت کی۔تاہم افسوسناک امریہ رہاکہ سیاحوں کوپریشانیوں سے گذرناپڑااس بار ماہ اگست میں سیاحوں کابہت زیادہ رش رہا جس کی وجہ سے خاص طورپر ناران میں سیاحوں کو مشکلات کاسامناکرناپڑا خاص طورپر جب محر م الحرا م میں بیک وقت چارچھٹیاں ایک ساتھ آئیں تو بہت بڑی تعداد میں سیاحوں نے ناران کارخ کیا جس کی وجہ سے ہوٹلوں میں جگہ کم پڑگئی اوراس کے ساتھ ہی ہوٹل مافیا کھل کرسرگرم ہوگیا ان دنوں دوہزاروالا کمرہ پانچ اورپانچ ہزارو الا دس سے بارہ ہز ار تک سیاحوں کو دیاجاتارہا اس کے لیے نت نئے حربے اختیارکیے گئے سیاحوں کو پہلے کہاجاتاکہ کمرہ کوئی خالی نہیں پھر ان کے ساتھ ایک مخصوص کمرہ کی سودابازی کی جاتی جو اس مقصد کے لیے رکھا گیاہواتھا یوں تقریبا سب ہوٹلوں نے سیاحوں کے ساتھ بے انصافی کی رش بڑھا تو ساتھ ہی ریستوران مافیا بھی بے لگام ہوگیا۔ ویسے بھی پورے ناران میں کہیں بھی قیمتوں،صفائی اور معیاری کی جانچ پڑتال کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی اور ان دنوں تو پھر اندھیر نگری ہوجاتی ہے چنانچہ مخصوص طریقے سے سیاحوں کو غیر معیاری کھانا مہنگے داموں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے کیپرا ٹیکس اور سروس چارجز کے نام پر بھی اضافی وصولیاں کی گئیں جیپ مافیانے بھی خوب خوب فائد ہ اٹھا یا پہلے ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں اورپھراچانک رش کو بنیادبناکر جیپ مالکان نے بھی دھڑلے سے سیاحوں کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا۔ دگنے تگنے کرائے وصول کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر سیاحوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں کی بھی اطلاعات سامنے آئیں اورپہلی بار ناران میں سیاحوں پرتشددکے ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے شہدمافیاتو پورے سیزن میں سرگرم رہا۔یہ مخصوص لوگ ناران سے لے بابوسر ٹاپ تک جعلی شہد فروخت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ شہد ان کو دوسوسے تین سو روپے فی کلو تک فراہم کیاجاتاہے جو پھرسیاحوں کو ایک سے دوہزار فی کلو گرام تک فروخت کیاجاتاہے ان کے خلاف کبھی بھی پولیس،کے ڈی اے یاپھر فوڈاتھارٹی کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوسکی واٹرمافیاوہ لوگ ہیں جنہوں نے ہربہتے چشمے اورآبشار پر قبضہ کرکے وہاں ہوٹل اور ڈھابے بناکر کرسیاں ڈال رکھی ہیں اور کسی کو بھی بغیر کچھ کھائے پیے یعنی ان کو ادائیگی کیے بغیر ایسے خوبصورت مقامات سے لطف اند وزہونے نہیں دیاجاتا ان چندعناصر نے پورے علاقے کو بدنام کردیا۔ اب ہوٹل اورریستوران مالکان نے اگر سیاحوں کو روٹھنے سے بچاناہے تو اگلے سیزن کے لیے ان کو ابھی سے ہرشعبہ کے لیے ٹی اوآرز بنانے چاہئیں تاکہ پھر کوئی بھی سیاحوں کو پریشان کرکے سیاحت کی صنعت کو متاثر کرنے کی کوشش نہ کرسکے اسی علاقہ میں وہ لوگ بھی موجودہیں جنہوں نے لینڈ سلائیڈ نگ کے بعدمتاثر ہ سیاحوں کے لیے اپنے ہوٹلوں اور ریستورانو ں کے دروازے کھول دیئے تھے اور ان کو مفت خدمات فراہم کی تھیں اس لیے مٹھی بھر عناصر کاراستہ روکنے میں ان لوگوں کو کردار اداکرناہوگا۔