شدید بارشوں سے آثار قدیمہ کو بھی نقصان

ملک میں آنے والے سیلاب نے صرف لاکھوں انسانوں کو ہی بے گھر نہیں کیا بلکہ شدید بارشوں سے اب چار ہزار پانچ سو سال قدیم اور مشہور مقام مونجوداڑو کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔جنوبی صوبہ سندھ میں دریائے سندھ کے قریب واقع موئن جو دڑو کے کھنڈرات کا شمار یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں ہوتا ہے۔ ان کھنڈرات کو 1922 میں دریافت کیا گیا تھا آج تک یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ یہ تہذیب کیسے وجود میں آئی اور کیسے پرسرار طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اس کا شمار قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق سیلاب نے مونجوداڑو کو براہ راست متاثر نہیں کیا لیکن ریکارڈ توڑ بارشوں نے اس قدیم شہر کے کھنڈرات کو نقصان پہنچایا ہے۔کئی بڑی دیواریں، جو تقریبا پانچ ہزار سال پہلے تعمیر کی گئی تھیں، مون سون کی بارشوں کی وجہ سے گر گئی ہیں۔اگرچہ ماہرین آثار قدیمہ کی نگرانی میں درجنوں تعمیراتی کارکنوں نے مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔ تاہم یہ مرمت کے مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ طویل وقت بھی لے گا۔رپورٹوں کے مطابق سائٹ کا تاریخی نشان بدھسٹ سٹوپا، جو بڑا نصف دائرہ ہے اور عبادت کے لیے استعمال ہوتا تھا، برقرار ہے۔ علاوہ ازیں قبرستان کی باقیات بھی ٹھیک ہیں لیکن بارشوں نے کچھ بیرونی دیواروں کو نقصان پہنچایا ہے اور کچھ بڑی دیواروں کو بھی، جو انفرادی کمروں یا چیمبروں کو الگ کرتی ہیں۔اگرچہ سیلاب نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش آج پاکستان پہنچ رہے ہیں تاکہ متاثرہ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق وہ صوبہ سندھ بھی جائیں گے لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا وہ صدیوں پرانے مونجوداڑو کے آثار قدیمہ کو دورہ بھی کریں گے۔انٹونیو گوٹیرش نے مشکل کی اس گھڑی میں بین الاقوامی برادری سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دے۔ ان کا کہنا تھا، یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں اور ان موسمیاتی تبدیلیوں نے ہمارے سیارے کی تباہی کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ آج پاکستان متاثر ہوا ہے لیکن کل کو کوئی اور کہیں بھی متاثر ہو سکتا۔ہے۔ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ مونجوداڑو کے کھنڈرات کو پہلے ہی خطرات کا سامنا تھا لیکن اب بارشیں انہیں مزید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ گرمیوں کے دوران اس علاقے میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے، جو کھنڈرات کی بقا کے لیے نقصان دہ ہے۔ علاوہ ازیں زیر زمین نمکیات سے بھر پور پانی بھی اس قدیم تاریخی شہر کو نقصان پہنچا رہا ہے۔2012 میں ماہرین آثار قدیمہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسمی حالات اور ممکنہ قدرتی آفات اس مقام کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، جتنا کہ اب تک اندازہ لگایا گیا ہے۔ رواں برس کی شدید بارشیں اس پیش گوئی کو سچ ثابت کر رہی ہیں۔آثار قدیمہ کو پہنچنے والے نقصانات کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیاحت کے ایک اہم شعبے کو نقصان پہنچا ہے۔ اب جس قدر تیزی سے ان آثار کی بحالی پر کام کیا جائے اس قدر بہتر ہے کیونکہ یہ مقامات دنیا بھر میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں اور سالانہ بڑی تعداد میں سیاح ان مقامات کو دیکھنے آتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورہ پاکستان سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ عالمی برداری یوں تو تمام شعبہ ہائے زندگی میں سامنے آنے والے نقصانات کی تلافی کیلئے امداد کریں گے تاہم آثار قدیمہ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا آزالہ کرنا از حد ضروری ہے۔یہ تو محض ایک مقام پر موجود آثار قدیمہ کی حالت ہے ملک کے طو ل وعرض میں بہت سے ایسے دیگر مقامات ہیں جن کے بارے میں رپورٹیں بعد میں موصول ہوں گی۔