حالیہ سیلاب سے نہ صرف ضلع سوات کے بالائی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ تباہ یا متاثر ہوا ہے بلکہ اِس وادی کی مختلف تحصیلوں میں سینکڑوں ایکڑ زرخیز اور زیرکاشت زرعی اراضی بشمول فصلات و باغات بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے‘بحرین سے پشاور‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ اسلام آباد اور دیگر شہروں کو سبزی و پھلوں کی فراہمی کی جاتی تھی لیکن اب نہ صرف زراعت بلکہ سبزی اور پھل کی فروخت کا پورا نظام (نیٹ ورک) معطل ہو چکا ہے اور یہ اُن چھوٹے کاشتکاروں کے لئے زیادہ نقصان کا باعث ہے جو زرعی اراضی اجارے (معاہدے) پر لیتے ہیں یا کم رقبے کے مالک ہیں اور اگرچہ اُن کی فصلیں بارشوں یا دریا و برساتی ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں یا اُن کی منڈیوں تک رسائی ختم ہو چکی ہے لیکن اُنہیں اراضی کا کرایہ اور فصل و باغات پر قرض لے کر کئے اخراجات بہرصورت ادا کرنا ہوں گے۔ سیلاب سے قبل جو کاشتکار اور باغبان پیداواری لاگت میں اضافے (مہنگائی) کی وجہ سے پریشان تھے‘ اُنہیں مزید تفکرات اور ہر دن بڑھتی ہوئی مایوسی نے گھیر رکھا ہے!بحرین کے اکثر زمینداروں کے ہاں اِس وقت گوبھی اور آلو کی فصل تیار ہے لیکن وہ اِسے ماضی کی طرح ملک کے مختلف حصوں کو فروخت کے لئے ارسال نہیں کر سکتے بلکہ کندھوں پر سبزی اُٹھا کر آریانہ کے علاقے سے بحرین تک کا پیدل سفر کرتے ہیں اور بحرین یا اِس کے راستے میں جہاں گاہگ ملے اُونے پونے داموں اپنی محنت بیچ کر اہل خانہ کے لئے کھانے پینے کی اشیاء و دیگر ضروریات خرید لاتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں قلت کے باعث عمومی قیمتوں سے زیادہ ہیں! آریانہ نامی گاؤں (قصبے) سے پیدل بحرین آنے میں ایک دن رات کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے جبکہ بھاری بوجھ لئے پیدل چلنا اور پھسلن والے پہاڑوں پر چڑھنا اور کیچڑ میں قدم جما کر راستہ تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ عمومی طور پر ”30 کلومیٹر“ کا پیدل سفر زیادہ بڑی بات نہیں ہوتی لیکن جب خراب موسم‘ بارش اور کیچڑ میں پہاڑوں پر چڑھنا اور اُترنا پڑے تو یہی تیس کلومیٹر نہ صرف تین سو کلومیٹر بن جاتے ہیں بلکہ یہ موت کے کنویں جیسا جان لیوا سفر بھی ہوسکتا ہے کہ ایک غلطی پہاڑ کی ڈھلوان سے سینکڑوں فٹ نیچے پہنچا سکتی ہے! بحرین کے مقامی محکمہئ زراعت نے صدر دفتر (پشاور) کو ارسال کرنے کے لئے سیلاب سے ہوئے ہوئے زرعی نقصانات متعلق اعدادوشمار مرتب کئے ہیں‘ جن سے معلوم ہوا ہے کہ تحصیل بحرین میں ہر سیزن ہزاروں ٹن سبزی اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ تحصیل بحرین کی کل زیرکاشت اراضی 3ہزار 903 ہیکٹر پر سبزی اگائی جاتی ہے جس میں سے 370 ہیکٹر اراضی سیلاب بہا لے گیا ہے اور اگر حالیہ سیلاب سے سبزی کے مجموعی نقصان کی بات کی جائے تو یہ تیس کروڑ تیس لاکھ (303ملین) روپے سے زائد ہے۔ اِسی طرح بحرین میں باغات کا کل رقبہ 1 ہزار 837 ہیکٹر پر محیط ہے جس میں سے قریب 13 ہیکڑ رقبے پر باغات کو نقصان پہنچا ہے اور اگر باغات کو پہنچے مجموعی مالی نقصان کی بات کی جائے تو صرف تحصیل بحرین میں قریب ایک کروڑ نوے لاکھ (18.52ملین) روپے کا نقصان ہوا ہے۔ یہ سرکاری اعدادوشمار کس حد تک قابل اعتماد ہیں اِس بارے میں مقامی کاشتکاروں اور باغبان کی رائے مختلف ہے جو اِس سے زیادہ مالیت کے اپنے نقصانات کا دعویٰ کر رہے ہیں کیونکہ کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پھلدار باغات کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ اِس منظرنامے میں بنیادی ضرورت بحرین سے کالام تک شاہراہ (آمدورفت) کی بحالی ہے۔ اگر فوری طور پر سڑک بحال کر دی جاتی ہے تو اِس سے امدادی و بحالی کی سرگرمیاں (نجی سطح پر بھی تعمیراتی کام کاج) میں تیزی آئے گی اور کاشتکاروں و باغبانوں کو ہوئے نقصانات کی شرح میں کسی حد تک کمی لائی جا سکے گی۔