پہلا نکتہ (معاشی نظام کی اصلاح) پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب نے ”ایک ہزار تین سو“ سے زائد جانیں لیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہیں‘ متاثرین میں سے زیادہ تر غریب اور نادار عارضی پناہ گاہوں میں بے یقینی و بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ وہ اپنے آبائی علاقوں کو کبھی پھر سے آباد دیکھ بھی سکیں گے یا نہیں! افسوس کہ سیلاب نے پاکستان کی بڑی آبادی کے مصائب میں غربت کی وجہ سے کئی گنا اضافہ کر دیا ہے‘ آزاد منڈی پر مبنی پاکستانی معاشی نظام میں دولت کے ارتکاز اور عدم مساوات پائی جاتی ہے اور سیلاب نے اِس تفریق و امتیاز میں مزید اضافہ کر دیا ہے‘ ایک ایسا معاشی نظام جس میں زندگی کا حق صرف اُسے حاصل ہوتا ہے کہ جس کے پاس سرمایہ ہو تو سیلاب سے زیادہ خوفناک اور بھیانک نوعیت کا ہمارا معاشی نظام ہے جس کی اصلاح کے حوالے سے بھی غوروخوض ہونا چاہئے۔دوسرا نکتہ (تخفیف غربت) معاشی اور سماجی مساوی نظام کی طرف بڑھنے کیلئے کچھ ساختی تبدیلیوں (اصلاحات) کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے فیصلہ سازوں کو ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑتی ہے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو ایسی سیاسی قیادت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملی جو اپنے آپ کو ملک پر قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتی ہو‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے مصائب میں کمی کیلئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کردار کیا اپنے اپنے مفادات کی قربانی دیں گے؟ سیلاب زدگان کے حوالے سے زیادہ تر کوششیں امداد اور بحالی پر مرکوز ہیں لیکن اِس پوری صورتحال میں غربت اور ماحولیاتی انحطاط کے بارے میں بات نہیں کی جا رہی‘ حالانکہ اِن کا آپس میں گہرا تعلق ہے درحقیقت غربت کی طرح زیادہ تر آفات انسانوں کی پیدا کردہ ہیں۔ غریب دریا کناروں‘ ندی نالوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوتے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ جب کبھی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی سطح بلند ہوتی ہے ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کیلئے مسائل و مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ دوسری طرف خستہ حال انفراسٹرکچر بھی تباہی میں اضافہ کرتا ہے۔تیسرا نکتہ (جنگلات کی حفاظت) پاکستان کی 69فیصد آبادی اپنی روزمرہ توانائی کی ضروریات کیلئے لکڑی جلانے پر انحصار کرتی ہے جبکہ جنگلات کو دوسرا خطرہ ”ٹمبر مافیا“ ہے جس کی لالچ و حرص کی وجہ سے پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافے کی کوششیں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں‘ جنگلات کی غیرقانونی طور پر کٹائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے‘ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نامی عالمی ادارے کے مطابق ”پاکستان کے کل رقبے کے صرف 5.7 فیصد حصے پر جنگلات ہیں جبکہ عالمی معیار یہ ہے کہ کسی ملک کے کل رقبے کے کم سے کم پچیس فیصد حصے پر جنگلات ہونے چاہیئں ایک ایسی صورتحال میں جبکہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ بھی کم ہے اور دوسری طرف جنگلات کی غیرقانونی کٹائی بھی ہو رہی ہے جس کی شرح ایشیا میں افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اپنی جگہ انتہائی افسوسناک اور خوفناک صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے‘ درخت زمین میں پانی کو جذب کرتے ہیں‘ زیر زمین پانی کی سطح بڑھاتے ہیں جو بارشوں کے کم ہونے کی صورت کام آتی ہے درختوں کی غیر موجودگی میں موسلادھار بارش زمین کے کٹاؤ (لینڈ سلائیڈنگ) کا سبب بنتی ہے اور بالخصوص پہاڑی علاقوں میں یہ جانی و مالی (بھاری) نقصانات کا باعث بنتے ہیں‘ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونیوالے ملک کی حیثیت سے پاکستان کا پہلا ردعمل ’جنگلات کی حفاظت‘ ہونا چاہئے‘چوتھا نکتہ (سیلاب زدہ خواتین کی ضروریات) عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں انسانی بحران سر اُٹھا رہا ہے اور سیلاب زدگان کو درپیش صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے‘لائق توجہ بات یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی کل تعداد (تین کروڑ تیس لاکھ) میں کم از کم نصف تعداد خواتین اور بچیوں کی ہے‘ جنہیں صحت سے متعلق دیکھ بھال کی فوری ضرورت ہے‘ بالخصوص زچہ و بچہ کی حالت میں خواتین کو مسلسل طبی معائنے اور متوازن غذا کی ضرورت رہتی ہے ”ڈبلیو ایچ او“ اور دیگر عالمی تنظیموں نے سینکڑوں کی تعداد میں طبی و امدادی کیمپ قائم کر رکھے ہیں جہاں شدید اسہال‘ چکن گونیا‘ ڈینگی‘ یرقان (ہیپاٹائٹس) اور ملیریا کی تشخیص کیلئے ہزاروں کی تعداد میں فوری تجزئیات کئے جا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے بہت سی خواتین اِن کیمپوں تک رسائی نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے اُنہیں لاحق مخصوص بیماریوں کو خاطرخواہ توجہ نہیں مل پا رہی‘ لمحہئ فکریہ یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر خواتین اور بچیاں غذائی قلت کا شکار ہوتی ہیں‘ اس لئے وہ بآسانی وبائی امراض‘ خسرہ اور ٹائیفائیڈ سمیت بیکٹیریل اور وائرل انفیکشنز کا شکار ہو جاتی ہیں‘ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خواتین کیلئے یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں تک امداد اور امدادی کارکنوں کا پہنچنا اب بھی مشکل ہے۔ عالمی ادارہئ صحت نے اپنی رپورٹ میں اِس جانب توجہ دلائی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ خواتین کی صحت‘ علاج معالجے اور اُن کی ماہانہ خصوصی ضروریات کیلئے امداد و تعاون میں اضافہ ہونا چاہئے اور اِس میں خاص طور پر لاکھوں حاملہ خواتین کو ریلیف فراہم کرنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔ عالمی امدادی اداروں کی جانب سے عام استعمال کے برتن (کچن سیٹ)‘ چٹائیاں‘ خیمے اور مچھردانیاں فراہم کی جا رہی ہیں اور سیلاب متاثرین کی امداد کرنے والوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ امدادی سامان دیتے ہوئے خواتین کی ضروریات کے لحاظ سے بھی کچھ نہ کچھ سامان اپنے عطیات میں شامل کریں‘ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے‘ اب بھی پریشان حال ہیں‘۔