اس نیلے آسمان تلے ایسے کتنے ہی خانوادے اس وقت بے سرو سامانی کے عالم میں سانس لینے پر مجبور ہیں، جن کی خالی خالی آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتی ہیں سرکار کے کام تو خیر بہت سے ضابطوں سے بندھے ہو تے ہیں اس لئے ان میں دیر سویر ہو جاتی ہے،مگر وہ غیر سرکاری تنظیمیں جو ہمیشہ ایسی ہی دکھ بھری ساعتوں میں اپنے لوگوں کی ڈھارس باندھنے اور اپنے طور پر ان کے مسائل کو کم کرنے کے لئے کو شاں رہتی ہیں وہ اب بھی پوری تندہی سے اپنافرض ادا کر رہی ہیں، بد قسمتی سے کچھ ایسے علاقے بھی اس وقت پانی کی لپیٹ میں ہیں سرکار کے ذرائع کے بغیر جہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے، میں نے کچھ ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ ہماری فورسز غیر سرکاری تنظیموں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کر رہی ہیں بلکہ ان کو وہاں تک پہنچنے میں مدد بھی کرتی ہیں، انجینئر عتیق الرحمن مجھے بتا رہا تھا کہ ان کی غیر سرکاری تنظیم ”کاوش“ کو فورسز نے ہیلی کاپٹر بھی مہیا کیا جس کی مدد سے وہ وہاں تک پہنچے ہیں، اور چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے بے آسرا لوگوں تک کھانے پینے کی اشیاء پہنچائیں۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی چھوٹی بڑی تنظیمیں ملک بھر میں اپنی بساط کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں اپنے لوگوں کی دلجوئی کے لئے کام کر رہی ہیں، اگر چہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اس وقت بہت بڑے پیمانے پر سیلاب زدہ علاقوں میں جو تنظیم بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے ہے وہ ”الخدمت“ ہی ہے، اب تو اس تنظیم کا نام اور کام ہی اس کی فعالیت اور شفافیت کا بھر پور استعارہ ہے، اور الخدمت کے مستعد اور تیار رضا کار کسی بھی مصیبت یا آفات ِ نا گہانی کے لمحوں میں فورا ً متاثرہ علاقے پہنچ کر اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ ان سے بے تحاشا پیار بھی کرتے ہیں اور از حد احترام بھی اس تنظیم کے حصے میں ہی آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس تنظیم کے سارے کام بہت ہی منظم اور جدید تر طریقے سے اور تنظیم کے زعماکی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔ ان دنوں بھی الخدمت کی تنظیم کے رضا کار دن رات پورے ملک میں سیلاب کی لپیٹ میں آئے ہوئے مصیبت زدہ گھرانوں کے بے بس اور بے کس افراد کے زخموں پر پھاہے رکھ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے جن علاقوں میں پانی دکھ بھری داستانیں لکھ گیا ہے وہ اب جانے کتنی دیر تک وہاں کے رہنے والوں کی آنکھوں میں رڑکتی رہیں گی۔ روزمرہ کے کاموں میں پوری توانائی کے ساتھ زندہ رہنے والے اور اپنے ہنستے کھیلتے کنبے کے ساتھ خوش خوش وقت گزارنے والوں کو جب اچانک سیلاب کی تباہ کاریوں نے اجاڑ کر رکھ دیا تو ان کے پاس سوائے ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ لاڈ پیار میں پلنے والے بچے کچھ دن تو پانی کو دیکھ کر سہمے رہے پھر ان پر بھوک غالب آگئی اور کچھ کھانے کو مانگنے کے لئے اپنے ماں باپ کی طرف دیکھنے لگے، جن کے پاس سوائے ان کو اپنے سینے سے چمٹانے کے اور کچھ نہیں تھا،، ایسی ہی سفاک گھڑیوں میں بہت سے گھرانے اب بھی سانس لینے پر مجبور ہیں۔ لیکن میں ان دوستوں کی اپنے لوگوں سے بے لوث محبت کو سلام پیش کرتا ہوں جو اپنے دکھ سکھ بھلا کر ان علاقوں میں جاتے ہیں اور اپنی طرف سے ہر ممکن امداد کی سعی کرتے ہیں مجھے کچھ دن ایک فلاحی تنظیم ”الحبیب ویلفیئر آرگنائزیشن“ کے صدر عرفان خان آفریدی اور ان کے رضا کار دوستوں کے ساتھ ان علاقوں میں گزارنے کا اورقریب سے ان کی مشکلات دیکھنے کا موقع ملا۔
یقین جانئے ان کے چہروں کی طرف دیکھا نہیں جا سکتا، سیلاب کی اطلاع کے بعد ان کے پاس اتنا وقت تو یقینا تھا کہ وہ اپنے بھرے پرے گھر چھوڑ کر اپنی جان بچا پائیں یا کچھ نہ کچھ ضرورت کا سامان بھی ساتھ لے آئیں جو چند جوڑے کپڑوں کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو بمشکل گھروں سے نکلنے پر آمادہ کیا گیا تھا، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سو چا جائے کہ اپنا بھرا پراگھر چھوڑ کر نکلنا کوئی آسان کام ہے، عام حالات میں بھی ا گر کبھی دوسرے گھر شفٹ ہونا پڑے تو انسان ہلکان ہو جاتا ہے اور جو اس مشق سے گزرتے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ گھر کے سامان کی پیکنگ اور شفٹنگ سے بڑا عذاب کوئی اور نہیں۔ اور سیلاب زدہ علاقے کے مکینوں کو تو یہ بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ پانی اترنے کے بعد ہم اپنے گھروں کو پہچان بھی نہیں پائیں گے وہ کس دل سے گھروں سے نکلے ہوں گے سوچیں بھی تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اب پانی واپس لوٹ گیا ہے مگر سیلاب کے جانے کے بعد وہاں کے باسی اپنے اجڑے گھروں کو دیکھ دیکھ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں، حالیؔ نے سیلاب کے حوالے سے تو نہیں کہا مگر مجھے لگتا ہے کہ اس شعر میں سیلاب کے بعد کی صورت حال کا نقشہ بیان ہوا ہے
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے نہ در کی صورت
میں نے نوشہرہ خصوصاً پیر سباق کے علاقے میں اور پھر چارسدہ اور سر دریاب کے آفت زدہ علاقے دیکھے، عر فان خان کی تنظیم بھی دیگر ان گنت فلاحی تنظیوں کی طرح مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے شب و روز کام کر رہی ہے، عرفان خان کئی ادبی تنظیموں سے بھی جڑا ہوا ہے اور باقاعدگی سے شریک ہو تا ہے مگر ان دنوں وہ تواتر سے غیر حاضر ہے میں اس کی ساری سرگرمیاں تنظیم کے وٹس گروپ میں دیکھتا رہتا ہوں اس لئے جب مجھے امریکہ سے افراز علی سیّد نے ایک خطیر رقم سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے کے لئے بھیجی تو میں نے”الحبیب ویلفیئر آرگنائزیشن“ کے دوستوں کی مدد سے ہی امدادی سامان خرید کر اور ان کے ساتھ وہاں جا کر تقسیم کیا،ابتسام علی سیّد اور سید ذیشان نے بھی میری بہت سی مشکلات کو کم کیا تبھی میں ان دشوار گزار علاقوں تک پہنچ سکا۔
گزشتہ کل میں ایک بار پھر عرفان خان کے ساتھ نوشہرہ کے ان گھروں تک گیا جو ہم سے پہلی بار جانے کے وقت رہ گئے تھے اب کے دوست ِ مہربان اور روز نامہ”آج“ کے کالم نگار و دانشور عتیق صدیقی نے امدادی سامان کے لئے ایک خطیر رقم مجھے بھیجی جو ’الحبیب‘ کے دوستوں کی مدد سے اس لئے بھی بہت احسن طریقے سے پہنچ گئی کہ ایک دن پہلے سید ذیشان نے پورے علاقے کا سروے کیا اور فہرست بنائی۔ میں نے جب ذیشان سے پوچھا کہ اشیائے خورد نوش کے علاوہ ان کو اور کیا چاہئے تو اس نے کہا، پا پا ہر چیزچاہئے کیونکہ ان کے گھروں میں تو پانی اترنے کے بعد تنکا بھی نہیں بچا۔ تاہم سب سے زیادہ ضرورت پینے کے صاف پانی کی ہے، کیونکہ سیلاب کے کثافتوں بھرے پانی سے سارے کنوئیں بھرے ہو ئے ہیں، جن میں سے زندہ اور مرے ہوئے حشرات الارض بھی نکل رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ اس وقت اگر ہم ان بے یارو مددگار لوگوں کو یہ یقین دلا سکیں کہ ہم ان دکھ بھری ساعتوں میں ان کے بہت پاس ہیں تو یقیناََ یہ دلجوئی ان کو اختر شیرانی کا ہمزباں کر دے گی۔
انہی غم کی گھٹا ؤں سے روشنی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے