بادشاہ چارلس سوم، برطانیہ میں نئے دور کا آغاز

ملکہ الزبتھ کی دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے بیٹے چارلس سوم نے بطور بادشاہ اپنی پہلی تقریر میں ملکہ کی زندگی اور ان کی خدمات کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ اپنی زندگی میں ملکہ برطانیہ، میری پیاری والدہ، میرے تمام خاندان کے لیے ایک مثال تھیں۔ اور جو کردار انہوں نے اپنے خاندان کے لیے ادا کیا، ہم ان کی محبت، پیار، رہنمائی، دانش مندی اور ایک مثال ہونے کے لیے، ان کے دلی طور پر مقروض ہیں۔“اس موقع پر نئے بادشاہ نے 1947کے اس وقت کو یاد کیا جب محض21برس کی عمر میں ہی ملکہ الزبتھ نے اپنی زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا تھا۔ کنگ چارلس نے کہا کہ یہی،ان کی ذاتی گہری وابستگی ہے جو ان کی پوری زندگی کا تعارف پیش کرتی ہے۔

 بادشاہ چارلس سوم ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے ممالک پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کافی حساس ہیں اور اب دنیا اس کی منتظر ہے کہ وہ بطور ولی عہد جو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے حساسیت رکھتے تھے اب بطور بادشاہ اس کا کیسے اظہار کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے تاہم ان میں سے اہم ترین چیلنج ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل ہیں، برطانیہ نے بطور ترقی یافتہ ملک اس نقصان کی تلافی کیلئے کیا کیا ہے، جس میں وہ برابر کا حصہ دارہے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے تاہم اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نئے بادشاہ برطانیہ کے اس کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں جو وہ دولت مشترکہ کے ممالک کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے اداکرنے کیلئے پر عزم ہے۔

اس دوران عالمی رہنماؤں کی جانب سے اب بھی اظہار تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے تصدیق کی کہ وہ بھی ملکہ کے سرکاری اعزاز والے جنازے میں شرکت کریں گے۔تمام باحیات سابق امریکی صدور نے ملکہ کے انتقال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔براک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل نے کہا کہ الزبتھ نے ملکہ کے کردار کو اپنی طرزِ حکمرانی کے ساتھ نبھایا، جس کی تعریف ان کے حسن سلوک، خوبصورتی اور انتھک محنت سے ہوتی ہے۔جارج ڈبلیو بش نے الزبتھ دوم کوعظیم ذہین، دلکش اور عقل و فراست کی حامل خاتون قرار دیا، جبکہ جمی کارٹر نے کہا کہ ان کاوقار، رحمدلی اور فرض شناسی متاثر کن تھیں۔