ملکہ الزبتھ دوم کا چھیانوے برس کی عمر میں انتقال اور 70 سال سے زائد حکمرانی کے ایام کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے بادشاہت کے ماضی و حال سے لیکر بادشاہت کے مستقبل بارے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال ہو رہا ہے اور اِن تمام بحثوں کا لب لباب (نچوڑ) یہ ہے کہ ماضی و حال کی بادشاہت میں بہت فرق ہے اور آج کسی بھی ملک کا بادشاہ ماضی کی طرح طاقتور اور بااختیار نہیں ہوتا کیونکہ دنیا نے بادشاہت اور کسی بھی دوسرے طرزحکمرانی کے مقابلے جمہوریت کو پسند کر رکھا ہے اور یہ اِس قدر مقبول طرزحکمرانی ہے کہ برطانیہ میں بادشاہت ہونے کے باوجود بھی وہاں جمہوری طریقے سے حکومت کا انتخاب اور کسی حکومت کی تبدیلی ہوتی ہے۔ جب ”ملکہ الزبتھ دوم (انتقال 8 ستمبر 2022ء) نے 6 فروری 1952ء کے روز تخت و تاج سنبھالا تھا اُس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں بادشاہ اور ملکہ بظاہر سیاسی طور پر بہت بااختیار تھے لیکن آج بادشاہت بہت سے ممالک میں ایک علامت کے طور پر قائم ہے اور حقیقی اقتدار پر اِس کی گرفت بھی کمزور ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم کی زندگی کے ساتھ کئی سیاسی تنازعات جڑے رہے جیسا کہ برصغیر کے گورنر جنرل اور برطانوی راج کے آخری وائس رائے ’لارڈ ماؤنٹ بیٹن‘ کا ’بینک آف انگلینڈ‘ اور کئی بااثر شخصیات کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کا منصوبہ اور ’ملکہ الزبتھ دوم‘ کی طرف سے اُن کی سرزنش پر ’نیٹ فلکس‘ نے ڈرامہ سیریز ”دی کوئین“ بھی بنائی جس سے یہ کہانی مشہور تو ہوئی لیکن برطانوی تاریخ میں اِن واقعات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ملتا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ برطانوی بادشاہت میں رازداری برقرار رکھنے کو پہلا اور بنیادی اصول (انتہائی اہم اور ترجیح) سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ”سر ونسٹن چرچل“ کی طرف سے ’ملکہ الزبتھ دوئم‘ پر حاوی ہونے کی کوشش کا قصہ بھی سینہ بہ سینہ روایات رکھتا ہے لیکن ملکہ اور 2 مرتبہ برطانوی وزیراعظم رہے ”سر ونسٹن لیونارڈ سپنسر چرچل (انتقال: 24 جنوری 1965ء)“ کی دوستی اِس حد تک تھی کہ ملکہ چرچل کے جنازے میں شاہی پروٹوکول بالائے طاق رکھتے ہوئے شریک ہوئیں جو ایک غیرمعمولی عمل تھا۔
شاہی روایات کے مطابق ملکہ یا بادشاہ کسی بھی تقریب میں پہنچنے والا ”آخری فرد“ ہوتا ہے لیکن ’ملکہ الزبتھ دوم‘ سر چرچل کے جنازے میں آخری مہمان کے آنے سے پہلے شریک ہوئیں۔ برطانیہ میں آٹھ ستمبر سے 10 روزہ سوگ کا منایا جا رہا ہے لیکن دنیا برطانوی بادشاہت کی ماں سے بیٹے کو منتقلی کو الگ زاویئے سے دیکھ رہی ہے بالخصوص دنیا بھر میں تحفظ ماحول کی کوششیں اور وکالت کرنے والے کارکن شہزادہ چارلس کے بادشاہ بننے سے پراُمید ہیں کہ دنیا کو تحفظ ماحول کی ایک بڑا حامی بصورت ’کنگ چارلس سوم‘ مل گیا ہے۔ ملکہ کے بعد اُن کے بڑے بیٹے 73 سالہ ”چارلس فلپ ارتھر جارج“ کے بادشاہ بننے اور اپنے لئے ”چارلس سوم“ کا لقب اختیار کرنا خاندانی روایات کا حصہ ہے۔ ملکہ الزبتھ کو ”19 ستمبر (بروز اتوار)“ پورے شاہی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کیا جائے گا۔ اُن کے جنازے کو یادگار اور محفوظ بنانے کے لئے غیرمعمولی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ تدفین کے چند دنوں بعد نئے بادشاہ کی رسم تاج پوشی ہوگی اور اِس تقریب میں ”کنگ چارلس سوم“ وہی تاج پہنیں گے جو سونے اور جواہرات سے جڑا ہوا ہے ایک اعشاریہ صفر چھ کلوگرام (2.3 پونڈز) وزنی تاج میں ’کوہ نور‘ نامی ہیرا بھی جڑا ہوا ہے جو برطانوی راج کے دوران برصغیر سے برطانیہ لیجایا گیا تھا۔
بھارت نے ”ملکہ الزبتھ دوم“ کے انتقال پر ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے کہ اُسے ’کوہئ نور ہیرا‘ واپس کیا جائے۔ 186 قیراط وزن کا یہ ہیرا 1849ء میں ’مہاراجہ آف لاہور‘ نے ایک تحریری معاہدے کے بعد برطانوی حکومت کو سپرد کیا تھا لیکن اِس کی ملکیت اُنہیں منتقل نہیں کی تھی۔ تب سکھ دور حکومت تھا اور کوہئ نور ہیرا سکھ مہاراجہ کے 5 سالہ بیٹے دُلیپ سنگھ کو ورثے میں ملا۔ دُلیپ سنگھ نے 1849ء میں یہ ہیرا ”ملکہ الزبتھ دوم“ کو پیش کیا لیکن اِس کی ملکیت آج بھی متنازعہ ہے اور اِس پر بھارت کا دعویٰ ہے۔ بہرحال ملکہ الزبتھ دوم کا تاج اُن کے والد بادشاہ جارج ششم نے بھی پہنا اور یہی تاج اور بادشاہت سے جڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اب ”کنگ چارلس سوم“ کے سر اور کندھوں پر ہے۔ کیا ’کنگ چارلس سوم‘ ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا پائیں گے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ’ملکہ الزبتھ دوم‘ کو برطانیہ اور دولت مشترکہ ممالک میں جو پیار اور احترام حاصل تھا کیا ویسا ہی ’کنگ چارلس سوم‘ کیلئے بھی ہوگا؟
ملکہ الزبتھ دوم نے چارلس کو طویل عرصہ پہلے ’بادشاہت‘ کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا اور انہیں دولت ِمشترکہ ممالک تنظیم کی سربراہی سونپی تھی جو بادشاہت اُنہیں دینے کے ایک علامتی فیصلے کے طور پر دیکھا گیا۔ شہزادہ چارلس نے دولت ِمشترکہ کو اوّلین ترجیح بنائے رکھا۔ ذہن نشین رہے کہ دولت مشترکہ نامی تنظیم 1931ء میں بنائی گئی جو اُن 56 ممالک پر مشتمل ہے جہاں برطانوی راج رہا ہے اور پاکستان بھی دولت مشترکہ کا حصہ ہے۔ برطانوی شہزادہ ہونے کی حیثیت سے ”کنگ چارلس تھری“ تحفظ ماحولیات کی عالمی کوششوں کے حامی ہیں اور انہوں نے دولت مشترکہ میکں شامل چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے ”تعلیمی وظائف (کلائمیٹ ایکشن اسکالر شپس)“ کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔ کنگ چارلس سوم نے ماحولیات سے متعلق مہم 1968ء سے شروع کی اور اِس سلسلے میں کئی ممالک جا کر ماحولیاتی تحفظ کے حق میں اجلاسوں سے خطاب کیا۔
اُن کا لب و لہجہ اور جملے ہمیشہ کسی ولی عہد یا بادشاہ کے نہیں بلکہ تحفظ ماحول کے کارکن اور مہم جو (ایکٹوسٹ) جیسے سنائی دیئے۔ تحفظ ماحول میں اُن کی دلچسپی اور مہم جوئی کو سیاسی انداز سے بھی دیکھا جاتا کیونکہ کئی ملکوں میں تحفظ ماحول ضرورت نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ’کنگ چارلس سوم‘ سال 2015ء میں ہوئے تحفظ ماحول کے عالمی ”پیرس معاہدے“ کے بڑے حامیوں میں شمار ہوتے ہیں جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کی کھل کر مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود شہزادہ چارلس نے دسمبر 2019ء میں ٹرمپ سے اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے حوالے سے بات کی جو اُن کی مرضی کے مطابق نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔سال 2020ء کے ’اکنامک فورم‘ میں اُس وقت کے شہزادہ چارلس نے جذباتی تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ ”کیا ہم تاریخ میں اپنا نام اس حوالے سے لکھوانا پسند کریں گے کہ جب دنیا تباہی کے دہانے پر تھی اور ہم اِس تباہی کو روکنے کے قابل تھے لیکن ہم نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو کم از کم ایسا نہیں چاہوں گا۔“
تنقید اور تضحیک کے باوجود شہزادہ چارلس نے تحفظ ِماحول سے متعلق اپنی مہم جاری رکھی۔ سال 2021ء کی گلاسگو کانفرنس میں بھی انہوں نے شریک ممالک پر زور دیا کہ وہ صنعتوں کو ماحولیاتی مسائل کے حل پر راغب کریں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”مجھے علم ہے کہ اس مقصد پر اربوں نہیں کھربوں خرچ ہوں گے لیکن ہمیں (تحفظ ِماحول کے لئے) جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔“ کنگ چارلس سوم ماحولیات کے علاوہ جینیاتی طور پر موڈیفائیڈ فصلوں سے لے کر ہومیوپیتھک ادویات تک کئی طرح کے موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور ملکہ الزبتھ دوم کے برعکس فوری اور فیصلہ کن انداز اپناتے ہیں۔
ملکہ الزبتھ اپنے تاثرات چھپانے کی کوشش کرتی تھیں اور شہزادہ چارلس بھی کہہ چکے ہیں کہ ”بادشاہ بننے کے بعد والدہ کے نقش قدم پر چلیں گے یعنی ”عدم مداخلت“ اپنائیں گے“ تاہم دیکھنا یہ ہے ”بادشاہ بننے سے پہلے“ تحفظ ِماحول کے حامی شہزادہ چارلس جس عزم اور جوش و جذبے کا اظہار کرتے تھے‘ کیا وہ اُس پر برقرار رہیں گے؟ اگر ایسا ہی ہوا تو کیا ”کنگ چارلس سوم“ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور معاشی نقصانات کے ازالے کیلئے ’خصوصی فنڈ‘ تشکیل دیں گے؟ اور کیا ”کنگ چارلس سوم“ اپنا پہلا غیرملکی دورہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا کرنے کیلئے تشریف لائیں گے؟