پہلا منظرنامہ: تاریخ کے غیرمعمولی سیلاب کی وجہ سے پاکستان کا تقریباً ایک تہائی حصہ زیرآب ہے اور اِس صورتحال میں آلودہ پانی سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں جن میں ڈینگی انفیکشن سرفہرست ہے اور ملک کے طول و عرض سے اطلاعات ہیں کہ ڈینگی وبا پھوٹ پڑی ہے جس سے ایک طرف عوام میں خوف پایا جاتا ہے تو دوسری طرف علاج کی سہولیات کا بڑے پیمانے پر بندوبست کرنے والوں نے بارشوں اور سیلاب کے حوالے سے جس ہنگامی حالت کا نفاذ کیا تھا اُس کی مدت میں توسیع کر دی گئی ہے! یہ منظرنامہ (صورت حال و احوال) اِس لئے تشویشناک ہے کیونکہ کچھ منافع خوروں نے بخار کی عمومی دوا ذخیرہ کر لی ہے تاکہ اِس کے زیادہ دام ملنے کی صورت فروخت کی جائے! کراچی سے پشاور تک ڈینگی کی وجہ سے ہلاکتیں معمول بن گئی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کی صورتحال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں دو ہزار سے زیادہ افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں اور ایسے مریضوں کے لئے وبا کی ابتدائی علامات اور دوران علاج بخار (جسمانی درجہئ حرارت) کم رکھنے کے لئے جن ادویات کی ضرورت ہوتی ہے اُس وہ اگر نہیں مل رہیں تو ایک ہنگامی صورتحال میں پیدا ہونے والی دوسری ہنگامی صورتحال کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد‘ اِس کی باقیات میں جابجا تالاب بن گئے ہیں جہاں مچھروں کی افزائش ہو رہی ہے اور اِس قدر بڑے پیمانے پر پانی کا فوری اخراج ممکن نہیں ہے! بے بسی کے اِس عالم میں اگر یہ خبر ملے کہ پشاور کی مارکیٹ میں بخار کم کرنے کی عمومی گولیوں کی قیمت سترہ روپے سے بڑھ کر تیس روپے کر دی گئی ہے اور قیمت بڑھانے کے باوجود بھی دوا نہیں مل رہی تو کیا یہ ظلم و جرم نہیں اور اِس سے قانون شکنی کے طور پر نمٹنا نہیں چاہئے؟دوسرا منظر نامہ: خیبرپختونخوا کا محکمہئ صحت سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا‘ ڈینگی بخار‘ سانس کے شدید انفیکشن اور ٹائیفائیڈ جیسی وبائی امراض کی روک تھام پر توجہ دے رہا ہے اور محکمے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق بروقت و فوری اقدامات کی وجہ سے سیلاب متاثرین کی خیمہ بستیوں (کیمپوں) میں بیماریوں پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں مرتب کردہ ایک محکمانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیمہ بستیوں میں مقیم سیلاب سے متاثرہ افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے جبکہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں کی شرح میں کم آئی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام (گیارہ ستمبر تک) سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں خونی ڈائریا کے کل 47کیسز رجسٹر کئے گئے جبکہ ایک دن پہلے یہ تعداد 168 تھی۔ سب سے زیادہ کیسز نوشہرہ‘ لکی مروت‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ دیر لوئر‘ چارسدہ اور مالاکنڈ کے اضلاع سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی شدید کمی کا مسئلہ آئندہ چند ماہ برقرار رہنے کی اُمید ہے کیونکہ سیلاب سے کنویں آلودہ ہو چکے ہیں اور صاف
پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے متاثرین آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ڈائریا (پیٹ خراب ہونے) کے کیسز زیادہ ہوئے تھے تاہم جن خیمہ بستیوں میں پینے کا صاف پانی فراہم کیا گیا وہاں صرف ڈائریا ہی نہیں بلکہ دیگر امراض پر بھی بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ محکمہ صحت کی رپورٹ میں بالخصوص اِس بات اور ضرورت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ یا غیرمتاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے سے متعدد امراض کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں آلودہ پانی استعمال کرنے سے پیدا ہونے والی بیماریاں عام ہیں اِن میں ٹائیفائیڈ‘ آنتوں کے کیڑے‘ اسہال‘ معدے گردے اور دیگر اعضا کی انفیکشن اور گیسٹرو جیسی بیماریاں شامل ہیں۔ انٹرنیشنل یونین آن کنزرویشن آف نیچر ریسوریسز (IUCN) کے رپورٹ کے مطابق ”پاکستان میں آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے بچوں کی اموات کا تناسب ساٹھ فیصد ہے‘ جو ایشیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے!“ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جب عمومی حالات میں ساٹھ فیصد بچوں کی اموات کا سبب صرف آلودہ پانی ہے تو سیلابی جیسی خصوصی و ہنگامی حالت میں مجبوراً آلودہ پانی استعمال کرنے والے بچوں کی زندگیوں کس قدر خطرے میں ہیں!؟خیبرپختونخوا کا محکمہئ صحت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی صاف کرنے والی گولیاں فراہم کر رہا ہے جن کے استعمال سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر ایک خاص حد تک قابو
پایا جا سکتا ہے اور یہ حکمت ِعملی خاصی کامیاب ثابت ہوئی ہے تاہم صوابی‘ مالاکنڈ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع سے آلودہ پانی کے استعمال کی اطلاعات اور مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جن بیماریوں کی شرح کم ہوئی ہے اُس میں شدید اسہال شامل ہے جن کی ہفتہ وار تعداد قریب ستائیس سو سے کم ہو کر تیئس سو مریضوں تک پہنچ چکی ہے۔ محکمہئ صحت نے موسم سرما کے آغاز اور اِس دوران سیلاب سے متاثرہ و دیگر اضلاع میں سانس کی بیماریاں پھیلنے کے بارے میں متنبہ کیا ہے کیونکہ ایک طرف اگر وبائی امراض کی شرح کم ہو رہی ہے تو دوسری طرف سانس کی بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اختتام پذیر ہوئے گزشتہ ہفتے میں (ہر چوبیس گھنٹوں کے دوران) محکمہ صحت نے اٹھائیس سو سے زیادہ (اوسطاً ڈھائی ہزار مریض فی چوبیس گھنٹے) کا علاج کرنا پڑ رہا ہے اور اندیشہ ہے کہ نوشہرہ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ دیر لوئر‘ لکی مروت‘ چارسدہ‘ صوابی اور سوات آنے والے دنوں میں زیادہ متاثرہ اضلاع ہوں گے جہاں سانس کا انفیکشن بڑھ رہا ہے۔ سیلاب کے بعد شدید وائرل یرقان (ہیپاٹائٹس) کے مریضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے جن اضلاع میں یرقان کی مختلف اقسام پھیل رہی ہیں اُن میں دیر لوئر‘ نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں۔ اِسی طرح مذکورہ اضلاع میں ٹائیفائیڈ کے مشتبہ کیسز‘ ڈینگی ہیمرجک فیور‘ ملیریا‘ خسرہ‘ جلد کے انفیکشن‘ اور آنکھوں کے امراض کی شرح بھی کہیں زیادہ تو کہیں کم شرح سے بڑھی ہے۔ خوش آئند ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات تقریباً ختم ہو گئے ہیں جبکہ دو ماہ میں ایسے 71 افراد کو سیلاب زدہ اضلاع میں طبی امداد دی گئی جنہیں سانپ یا دیگر زہریلے جانوروں نے کاٹا تھا تاہم محکمہئ صحت کی مشکلات اور چیلنجز کم نہیں ہوئے۔علاج کی سہولیات کا بندوبست کرنے والے صوبائی فیصلہ سازوں کے لئے ”اگلا چیلنج (دوسری بڑی مشکل)“ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کی روک تھام ہے جہاں ملیریا‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈینگی اور سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور موسم کی تبدیلی (سردی کی شدت بڑھنے کے ساتھ) اِن بیماریوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے محکمہ صحت نے دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر کوششیں شروع کر رکھی ہیں‘ جن میں ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف کے علاؤہ‘ محکمہئ صحت تحصیل میونسپل حکام‘ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اور ضلعی انتظامیہ شامل ہیں جن کے متعلقہ شعبوں کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر سیلاب زدہ اضلاع میں وبائی امراض روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مسلسل بارشوں اور حالیہ سیلاب سے خیبرپختونخوا کی مجموعی طور پر 256 صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جنہیں دوبارہ تعمیر کیا جائیگا۔ عالمی بینک نے دو سال قبل خیبرپختونخوا میں ”انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کا منصوبہ“ شروع کیا اور اِسی حکمت عملی کے تحت سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں علاج معالجے کے نظام کی تعمیرنو کی جائے گی۔