’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘ کے زیراہتمام ہر ماہ ’شوریٰ ہمدرد (Thinker's Forum)‘ کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا ہے جس میں اظہار ِخیال کے لئے مختلف شعبہئ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مقررین کو مدعو کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ و ثقافت اور معیشت و معاشرت کو سمجھنے کی اِس ”سنجیدہ کوشش“ کو علمی ادبی حلقے ”اہم“ قرار دیتے ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس جیسی کوئی دوسری ہم عصر کوشش پشاور میں دکھائی نہیں دیتی۔ شہید حکیم سعید کی زندگی میں ”ہمدرد شوریٰ“ اب ”شوریٰ ہمدرد“ کہلاتی ہے جبکہ اِس نشست کے دعوت ناموں سے لیکر محافل کی عمومی بول چال اور خطبات پر انگریزی زبان کے الفاظ اور ایسے موضوعات حاوی ہوتے محسوس ہو رہے ہیں جن کا پاکستان کو درپیش حالات (عصری مسائل) سے بہت کم تعلق ہوتا ہے یا ان کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مفکرین و ماہرین کی رہنمائی میں جاری زبانوں کی اِس کشمکش میں ہمدرد شوریٰ یا شوریٰ ہمدرد کا ”اصل مقصد“ فوت نہیں ہونا چاہئے۔ رواں ماہ (ستمبر دوہزاربائیس) کے لئے ’شوریٰ ہمدرد پشاور‘ کا موضوع ”ذمہ دارانہ صحافت اور اخلاقی اقدار“ رکھا گیا جس کے لئے مقرر کا انتخاب بھی شعبہئ صحافت ہی سے کیا گیا لیکن اِس کے لئے ”ایوان ِصحافت“ کا انتخاب نہیں کیا گیا جو صرف اِس ایک موضوع ہی نہیں بلکہ دیگر سبھی موضوعات کے لئے علمی و فکری نشستوں کا زیادہ موزوں مقام ہے۔
نشان امتیاز و ستارہئ امتیاز‘ شہید حکیم سعید (1920ء - 1998ء) کی حیات میں ’ہمدرد شوریٰ‘ میں سیاسی اور غیرسیاسی موضوعات کے سیاسی پہلوؤں پر بھی اظہار خیال کیا جاتا تھا جسے سننے والوں میں سیاسی فیصلہ ساز بھی شریک ہوتے تھے اور سب سے بڑھ کر ’ہمدرد شوریٰ‘ کے لئے حالات ِحاضرہ کی مناسبت سے موضوع کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ ’ہمدرد شوریٰ‘ کی روایت کو جاری و ساری رکھنے والوں سے امید تھی کہ آئندہ چند ماہ تک ہر نشست میں ”سیلاب متاثرین کی بحالی و امداد‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات (انوائرمنٹل چیلنجز) اور پاکستان میں آبی نظم و نسق“ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا اور مسلسل رہنمائی کرتے ہوئے صرف موضوعات ہی نہیں بلکہ اِن کے ذیلی موضوعات کا بھی احاطہ کیا جائے گا یعنی ”بال کی کھال“ اتاری جائے گی کیونکہ پاکستان موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور دنیا میں سب سے پہلے یہ تبدیلیاں پاکستان میں رونما ہو رہی ہیں۔ سماجی سطح پر یہ بحث بھی زیربحث آنی چاہئے کہ کیا سائنسی تحقیق اس درجے تک کمال حاصل کر چکی ہے کہ اِس کے ذریعے انسان اپنی مرضی کے موسم تخلیق کر سکتا ہے؟ پاکستان میں حالیہ سیلاب اور مون سون بارشوں کے بارے میں ایک رائے (تاثر) یہ بھی عام ہے کہ یہ پاکستان میں بیرونی مداخلت کا نتیجہ ہے اور سائنسی علم نے یہ کمال حاصل کر لیا ہے کہ اب مصنوعی طریقے سے کسی بھی ملک کے سرد‘ گرم یا بارشوں کے موسم کی شدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کرہئ ارض (زمین) کی فضا کا ایک حصہ جسے ’روان دار علاقہ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ’روانی کرہ (ionsphere)‘ جو کہ زمین کی سطح کے تیس سے پچاس میل اوپر سے شروع ہو کر 200 میل تک پھیلا ہوا ہے اور اِس میں سورج سے آنے والی ایکس (x) اور بالا بنفشی (uv) اشعاع کی ’آئیونائزیشن‘ ہوتی ہے جس سے آزاد گردش کرنے والے ذرات (الیکٹران) وقوع پذیر ہوتے ہیں اگر کسی بھی طریقے سے الیکٹران پیدا کئے جائیں تو یہ عمل موسموں کی تخلیق میں قدرت کے بنائے ہوئے توازن کو بگاڑنے یعنی مداخلت کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سال 1990ء میں امریکہ کے محکمہئ دفاع اور عسکری علوم و تحقیق کے مراکز نے مشترکہ حکمت ِعملی کی منظوری دی جس کے تحت 1993ء میں ’ہائی فریکونسی ایکٹو ایرورال ریسرچ پروگرام (HAARP)‘ کے لئے باقاعدہ مرکز تعمیر کیا گیا اور اِس پچیس کروڑ ڈالر (250ملین ڈالر) مالیت کے منصوبے کو امریکی ریاست ’الاسکا (Alaska)‘ کی جامعہ کے حوالے کر دیا گیا یوں فوجی (دفاعی) مقاصد کیلئے شروع ہونے والا یہ پروگرام بعدازاں غیرفوجی (غیردفاعی) مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا اور خاص بات یہ ہے کہ ’ہارپ‘ نامی اِس پروگرام کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اِسے جاری رکھا گیا جس کے بارے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کے موسموں کو تسخیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ اِس تاثر کو ’سازشی نظریہ (کانسپریسی تھیوری)‘ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ’ہاراپ‘ کرہئ ارض کو سمجھنے کے لئے جاری علمی تحقیق کا نام ہے‘ جس کی تفصیلات خفیہ نہیں بلکہ کوئی بھی امریکی یا غیرامریکی شخص اِس تحقیق کے نتائج اور طریقہئ کار کو قریب سے مطالعہ و مشاہدہ کر سکتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں ملک کی داخلی سلامتی و بقا کے لئے ”حقیقی خطرہ“ ہیں جس کا خاطرخواہ سنجیدگی سے تصور اور ادارک نہیں کیا جا رہا۔ اِس سلسلے میں غیرسرکاری ماہرین اور تحقیق کاروں کو سامنے آنا چاہئے کہ کس طرح ملک کو درپیش موسمیاتی خطرات سے بچنے کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اگر آئندہ مون اور موسم سرما میں برفباری کے معمولات زیادہ ہوئے تو ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قومی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بھی ماہرین کی رائے (input) ملنا بھی ضروری ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل (چیلنجز) کے بارے میں بروقت دفاعی حکمت ِعملی وضع کی جا سکے۔ اقوام عالم کی ترقی ’فلسفیانہ نظریات‘ سے شروع ہوتی ہے اور اِنہی نظریات کی روشنی میں ’قومی ترجیحات‘ کا تعین کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ”ذمہ دارانہ صحافت اور اخلاقی اقدار“ کا تعلق ہے تو اِس کیلئے کاروباری اور ادارہ جاتی پہلوؤں کی اصلاح بھی یکساں ضروری ہے۔ صحافت میں پیشہ ورانہ اخلاقیات پر خاطرخواہ عمل درآمد نہ ہونے کے بارے میں سطحی (بنا سیاق و سباق) غوروخوض اِس شعبے میں اصلاحات اور اِس کی ترجیحات کے عمل کو سست کرنے کا باعث بن رہی ہے اور اِس سے مسائل کی گھتیاں مزید الجھ رہی ہیں۔
موضوع متنوع ہے کہ صحافت میں علمی و عملی سرمایہ کاری کرنے والے اور اِس کے مالی سرمایہ کار اپنی اپنی ذمہ داریوں کی بجاآوری الگ الگ نکتہ ہائے نظر سے کر رہے ہیں۔ سچ کا بھی وقار ہوتا ہے اور اِسی وقار سے مزین باوقار اقوام ابھرتی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صحافت سے جڑے سبھی طبقات کے نظریئے میں حائل خلیج (فاصلہ) کم کیا جائے اور سچ کے سفر کا آغاز پسندوناپسند یا حمایت و مخالفت میں نہیں بلکہ غیرجانبداری اور ذمہ داری کی رہنمائی میں آگے بڑھے۔ ”خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے …… کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے (سیّد ضمیر جعفری)۔“