پشاور کہانی: کیوں؟ آخر کیوں؟

صوبائی دارالحکومت پشاور کی ضلعی انتظامیہ کل (16 ستمبر) سے ایک خصوصی مہم کا آغاز کر رہی ہے جو ”منشیات سے پاک پشاور مہم“ کا دوسرا مرحلہ ہوگا۔ اِس سلسلے میں جو تیاریاں (ہوم ورک) کیا گیا ہے اُس کے مطابق قریب 600 منشیات کے عادی افراد کو بحالی مراکز منتقل کیا جائے گا۔ خاص بات یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے ”منشیات سے پاک پشاور مہم“ نامی حکمت ِعملی کے پہلے مرحلے سے کچھ اسباق بھی سیکھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسرے مرحلے کے لئے حکمت ِعملی وضع کرتے ہوئے چند اصلاحات کی جائیں گی جو اپنی جگہ قابل ذکر و قابل قدر ہیں۔ سب سے پہلے منشیات کے استعمال سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خصوصی علاج گاہوں (جنہیں ’بحالی مراکز‘ کہا جاتا ہے) کی موجودہ تعداد پانچ سے بڑھا کر چھ کر دی گئی ہے۔

 علاوہ ازیں منشیات کے عادی افراد میں امراض کی تشخیص کے لئے ’آغا خان‘ اور ’شوکت خانم‘ لیبارٹریوں کے ذریعے تجزئیات کروائے جائیں گے جبکہ اِس سے قبل نشے کے عادی افراد کا علاج شروع کرنے سے قبل‘ مقامی لیبارٹریز سے مختلف تجزئیات کروائے جاتے تھے اور اِن تجزئیات کی بنیاد پر ماہر معالجین علاج تجویز کرتے تھے اگرچہ مہم کے دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے کی کامیابیوں (خوبیوں) اور ناکامیوں (خامیوں) پر مبنی حاصل شدہ اسباق کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ایک واقف ِحال کے مطابق ”نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لئے جملہ کوششیں عملاً کامیاب (نتیجہ خیز) بنانے سے زیادہ صوبائی حکومت کے اطمینان کو زیادہ ملحوظ رکھا گیا اور یہی وجہ تھی کہ کئی ایسے منشیات کے عادی افراد کو بھی بحالی مراکز سے جانے دیا گیا جنہیں مزید علاج معالجے اور نگہداشت کی ضرورت تھی کیونکہ ضلعی انتظامیہ کی وضع کردہ مہم میں بحالی کے لئے علاج کی زیادہ سے زیادہ اور مقررہ مدت تین ماہ رکھی گئی تھی۔

 ظاہر ہے کہ منشیات کے عادی ہر شخص کے مرض کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے لیکن سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی وجہ سے اگر پہلے مرحلے کو مکمل کامیاب نہ قرار دیا جائے تو درست ہوگا۔ اِسی طرح ”منشیات سے پاک پشاور مہم“ کے دوسرے مرحلے کے لئے علاج کا دورانیہ تین مہینوں سے بڑھا کر چار ماہ کر دیا گیا ہے لیکن یہ مدت بھی کئی مریضوں کے لئے کافی نہیں ہوگی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نشے کے کسی بھی مریض کی مکمل بحالی تک اُس کا علاج معالجہ اور نگرانی جاری رہنی چاہئے۔ المیہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز اِس حقیقت کو تو تسلیم کر رہے ہیں کہ پشاور میں منشیات کے عادی افراد پائے جاتے ہیں۔ منشیات کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں سمیت کئی ایسے مقامات ہیں‘ جو منشیات فروشی اور اِس کے استعمال کے مراکز (اڈے) بن چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود منشیات کی خریدوفروخت کے خلاف بڑے پیمانے پر ’کریک ڈاؤن‘ کی صورت کاروائی نہیں کی جاتی۔ یہ صورتحال بالکل اُسی طرح خطرناک ہے جس طرح کسی تہوار یا خوشی کے موقع پر ’ہوائی فائرنگ‘ کی جاتی ہے جس پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن چونکہ پشاور میں اسلحے کی بھرمار ہے‘ اور جب تک ”پشاور کو اسلحے سے پاک مہم“ چلاتے ہوئے گھر گھر تلاشی نہیں لی جائے گی اور اسلحے کی ترسیل (خریدوفروخت) کو ناممکن حد تک دشوار نہیں بنایا جائے گا اُس وقت تک محض باتوں سے بہتری نہیں آئے گی۔

 اہم بات یہ بھی ہے کہ پشاور میں دیگر اضلاع اور ملک کے دیگر حصوں سے منشیات استعمال کرنے والوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اِس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو پشاور کے داخلی راستوں اور بس اڈوں کی نگرانی کرنا ہوگی جہاں منشیات کے عادی مقامی و غیرمقامی افراد کے جھنڈ دکھائی دیتے ہیں لیکن افسوس کہ منشیات کے عادی افراد (جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے) فیصلہ سازوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟سٹی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن (ضلعی انتظامیہ) محکمہئ پولیس و ایکسائز اور دیگر متعلقہ اداروں کے اشتراک سے ’پشاور کو منشیات سے پاک مہم‘ کا آغاز ’اعلانات‘ کے ذریعے کیا گیا ہے جبکہ اِس قسم کی کسی بھی مہم کی کامیابی کے لئے ”رازداری“ سب سے زیادہ (انتہائی) اہم ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ”منشیات سے پاک پشاور مہم“ نامی حکمت عملی میں زیادہ زور ’نشے کے عادی افراد‘ کو حراست میں لینے‘ اُن کی زبردستی بحالی مراکز منتقلی اور اُن کا فوری علاج معالجہ شروع کرنے سے متعلق ہوتا ہے لیکن پشاور کے طول و عرض میں منشیات کی فروخت کرنے والوں کے خلاف خاطرخواہ بڑے پیمانے پر کاروائی دیکھنے میں نہیں آتی۔

ایک ایسی صورتحال میں جبکہ منشیات بآسانی دستیاب ہوں اور اِنہیں باسہولت خریدا (حاصل کیا) جا رہا ہو‘ تو کیا گنتی کے چھ بحالی مراکز اور چھ سو افراد کے علاج معالجے کا زبانی کلامی دعویٰ کرنے سے برسرزمین حقائق تبدیل ہوں گے۔ منشیات نہایت ہی خاموشی سے پشاور کی رگ و پے میں سرایت کر رہی  ہیں اور چونکہ سماجی و خاندانی نگرانی کے نظام کمزور ہو چکے ہیں اِس لئے معاشرہ صرف منشیات ہی نہیں بلکہ دیگر کئی محرکات کے باعث بھی اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ یہ لمحہئ فکریہ منشیات کے خلاف پرعزم‘ وسیع پیمانے پر کاروائیوں‘ گہرائی سے غوروخوض (توجہات) اور وسائل پرمبذول (مرتکز) کرنے کا ہے‘ سطحی کوششوں کو جامع تدابیر سے تبدیل نہ کرنے کا طرز فکروعمل بھی حکومتی فیصلہ سازی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ”تیرے سانچے میں ڈھل گیا آخر …… شہر سارا بدل گیا آخر (فرحت عباس شاہ)“