پہلا منظرنامہ (افرادی قوت کی کمی): سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زچہ و بچہ کو علاج معالجہ‘ نگہداشت اور خوراک کی فراہمی کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے 13اضلاع میں 300 سے زائد عارضی علاج گاہیں قائم کی ہیں۔ اِن ”زچگی کیمپس“ میں ’پچیس ہزار‘ سے زائد حاملہ خواتین طبی کودیکھ بھال اور مدد فراہم کی جائے گی جس میں ضروری ادویات‘ ماہر امراضِ چشم‘ تربیت یافتہ برتھ اٹینڈنٹ اور پیرا میڈیکل سٹاف شامل ہے لیکن علاج بنا ادویات ممکن نہیں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی صاف کرنے کی گولیوں اور دیگر ادویات کی فراہمی میں تعطل کی اطلاعات سے محکمہئ صحت کے حکام متفق نہیں۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ منافع خوروں نے ادویات کی قلت کے ذریعے ’مصنوعی بحران‘ پیدا کر رکھا ہے اور اب تک کی کاروائیوں میں ڈرگ انسپکٹرز کی کڑی نگرانی کے باوجود صورتحال معمول پر نہیں آ رہی! اِس سلسلے میں 2 طرح کے حالات سے واسطہ ہے۔
ایک صورتحال یہ ہے منہ مانگے داموں پر ادویات فروخت ہو رہی ہیں اور دوسری صورتحال یہ ہے کہ ادویات کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں ہیں‘ جس کی ایک وجہ سیلاب سے متاثرہ خیبرپختونخوا کے 13 اضلاع میں نقل و حمل کا نظام متاثر ہوا ہے۔ اُمید ہے کہ محکمہئ صحت کے حکام ذرائع ابلاغ پر ناراض ہونے کی بجائے ادویات کی قیمتوں کو معمول پر لانے اور ادویات کی دستیابی یقینی بنائیں گے۔دوسرا منظرنامہ (ہم آہنگی کا فقدان): خیبرپختونخوا میں طب کی سہولیات فراہم کرنیوالے طبی عملے میں خواتین ہیلتھ ورکرز کی کمی سامنے آئی ہے اور اِس صورتحال سے نہ صرف سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں علاج معالجہ متاثر ہو رہا ہے بلکہ بیماریوں سے متعلق عوامی آگاہی کی مہمات بھی معطل ہیں۔
محکمہئ صحت کے حکام اِس سلسلے میں متعلقہ ذیلی محکموں کی ناقص کارکردگی کا ذکر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاج معالجے سے متعلق ایک جیسا کام کرنے والے اداروں کے درمیان رابطہ کاری (کوآرڈی نیشن) نہیں ہے‘ جو ایک الگ اور وسیع موضوع ہے۔ معاون طبی عملے (افرادی قوت) کی کمی کے باعث ڈینگی بخار کا پھیلاؤ روکنے کی کوششوں میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے مچھروں کی افزائش زیادہ ہوئی ہے اور مچھروں سے بیماریاں پھیلنے والی بیماریوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین صحت نے بے گھر آبادی میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماری کے خطرے کی وجہ گھر گھر آگاہی و علاج معالجے کی سہولیات پہنچانے کے لئے نئے ضم شدہ (قبائلی) اضلاع میں خواتین عملے کی کمی اور لوگوں کی اپنی حفاظت کے لئے انسداد ڈینگی کی کوششوں کا حصہ نہ بننے کا ذکر کیا ہے۔
نئے ضم شدہ (قبائلی) اضلاع میں صحت عامہ کی صورتحال مثالی نہیں اور اِس کی بنیادی وجہ ’لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ کی کمی ہے۔ عمومی حالات میں یہ خواتین پر مشتمل معاون طبی عملہ گھر گھر جا کر مچھروں کی افزائش کے بارے آگاہی فراہم کرتا ہے اور مچھروں کی افزائش کا باعث بننے والے ’لاروا‘ پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ بارش سے جابجا کھڑا پانی مچھروں کی افزائش کا اہم ذریعہ ہے جبکہ کھلے برتنوں‘ ٹائر‘ گملوں‘ پانی کے کھلے حوض یا ٹینکیوں میں موجود پانی بھی مچھروں کی افزائش کا باعث بنتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ جن علاقوں میں ’لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ گھر گھر جا کر ڈینگی و دیگر بیماریوں کے خلاف عوامی آگاہی اور شعور میں اضافہ کرتی رہی ہیں وہاں امراض پھیلنے کی کم شرح سامنے آئی۔
خیبرپختونخوا کا مسئلہ یہ ہے کہ ’19 محکمے ڈینگی کا پھیلاؤ روکنے کی حکومتی کوششوں کا حصہ ہیں‘ اور چونکہ اِن محکموں کے درمیان ہم آہنگی نہیں اِس لئے بالخصوص سیلاب کے بعد ڈینگی کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔تیسرا منظرنامہ (ڈینگی کے وار): خیبر پختونخوا میں سال 2017ء کے دوران ڈینگی بخار کے کل 24 ہزار 938 کیسیز سامنے آئے تھے اور اِس مرض سے کم سے کم 70 اموات ریکارڈ ہوئی تھیں اُس وقت ضلع پشاور خیبرپختونخوا میں ڈینگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا جب مریضوں کی کل تعداد میں سے 94.3 فیصد مریضوں کا تعلق پشاور سے تھا۔ سال 2019ء میں ڈینگی وباء (انفیکشن) پھیلی تو اِس سے مجموعی طور پر 7 ہزار 83 افراد متاثر ہوئے اور خوش قسمتی سے ڈینگی سے کوئی موت نہیں ہوئی۔
سال 2021ء میں ڈینگی سے 10 ہزار 617 افراد متاثر ہوئے اور اِن میں سے 10 کی اموات ہوئیں۔ ڈینگی بخار کے حوالے سے محکمہئ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق (چودہ ستمبر تک) چارسدہ‘ لوئر دیر‘ ہری پور‘ خیبر‘ مردان‘ نوشہرہ اور پشاور سمیت سات اضلاع میں وائرس سے 3 ہزار 520 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 2 ہزار 775 صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن چونکہ ڈینگی کا ایک مریض اپنے گردوپیش میں درجنوں دیگر افراد کو متاثر کر سکتا ہے اِس لئے قریب اٹھائیس سو مریضوں کی موجودگی معمولی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 310 نئے کیسز اور ہسپتالوں میں ڈینگی کے تیس مریض داخل ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد ہسپتالوں میں زیرعلاج ڈینگی کے مریضوں کی کل تعداد 483 ہو گئی ہے اور اِن میں 741 فعال (ایکٹو) کیسز ہیں۔ جن میں سے 85مریض مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
معالجین کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی ذمہ داری صرف محکمہ صحت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ذمہ داری دیگر حکومتی محکموں کی ہے کہ وہ مچھروں کی افزائش گاہوں کی نشاندہی کریں اور وہاں ادویات کا چھڑکاؤ (اسپرے) کر کے مچھروں کی افزائش گاہیں ختم کی جائیں۔ اِسی طرح بجلی کی بلاتعطل فراہمی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ صارفین پنکھے استعمال کریں اور مچھروں کے کاٹے سے محفوظ رہ سکیں۔چوتھا منظرنامہ (لائحہ عمل): خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری ڈاکٹر شہزاد خان بنگش نے ”ڈینگی ایکشن پلان 2022ء“ کے تحت ”تمام حکومتی محکموں کو ذمہ داری (ٹاسک) دیا ہے کہ وہ ضلعی سطح پر ”ڈینگی رسپانس یونٹس“ سے تعاون کریں۔ حکمت عملی کے تحت تمام محکموں کو خطوط بھیجے گئے ہیں جن میں ڈینگی مچھر کے لاروے (ویکٹر) کا پتہ لگانے‘ اسپرے کرنے اور کیس مینجمنٹ کنٹرول سے متعلق حکمت عملیوں کو نافذ کرنے کے لئے تربیت یافتہ عملہ اور آلات دستیاب کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں۔
یہ احکامات جاری کرتے ہوئے محکموں کے وسائل اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے اعدادوشمار کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے رسمی خط و کتابت اور تحریری ہدایات جاری کرنے سے ایک ضرورت تو پوری ہو گئی ہے لیکن اِس سے حسب توقع مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ڈینگی کے لحاظ سے اٹھارہ یونین کونسلوں کو ہائی رسک‘ پچیس کو درمیانہ اور 175 کو کم رسک والے علاقے قرار دیا گیا ہے۔پانچواں منظرنامہ (زمینی حقائق): جانی و مالی نقصانات کے ساتھ سیلاب اپنے ساتھ بیماریاں بھی لایا ہے اور اِن میں ڈینگی سب سے بڑا خطرہ اور مسئلہ ہے جو ماضی میں بھی سر اٹھاتا رہا ہے لیکن اِس مرتبہ سیلاب کے باعث زیادہ سنگین شکل میں ابھر کر سامنے آیا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں ڈینگی کے کسی علاقے میں سراُٹھانے کے فوراً بعد کاروائی کی جاتی تھی لیکن اب سیلاب کی وجہ سے آمدورفت ماضی کی طرح ممکن و آسان نہیں ہے۔
جس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے اگرچہ ڈینگی سے اموات کی شرح کم ہے لیکن اس کا اثر خاندانوں اور مریضوں پر خود تباہ کن مرتب ہوتا ہے۔ یہ مرض زکام (فلو) جیسی عمومی علامات سے شروع ہوتا ہے اور پھر زیادہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں گزشتہ ماہ (اگست دوہزاربائیس) سے اب تک پانچ سو بچوں کے خون کے نمونوں کی جانچ (اسکریننگ) جن میں سے قریب تین سو بچے ڈینگی مثبت پائے گئے اور ڈینگی ہی کے سبب اموات کی شرح دو سے تین فیصد رہی ہے جو تیزی سے بڑھ بھی سکتی ہے کیونکہ سیلاب متاثرین مچھروں کے رحم و کرم پر ہیں اور دوسری طرف علاج گاہوں میں بستروں‘ طبی و معاون طبی عملے اور ادویات کی کمی ہے۔