آزاد ی اور آگہی 

اب تو 75برس ہوگئے ہیں کئی نسلیں آزاد فضاؤں میں پیدا اورجوان ہوچکی ہیں‘غلامی کے تاریک دور میں پید اہونے والی نسل کے جو نمائندے آج بھی ہمارے بیچ میں موجود ہیں ان سے بات کریں تو وہ عہد غلامی کے بدترین دور کی تلخیوں کی کڑواہٹ آج بھی محسو س کررہے ہیں کیونکہ غلام کی زندگی نہیں ہوا کرتی‘اللہ کے فضل سے ہم نے آزادفضاؤ ں میں جنم لیا اب  اس میں رنگ بھرنے اور اسے زیادہ بامعنی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کا ہر شہری، خواہ وہ کسی مذہب، ذات، علاقے اور خطے سے تعلق رکھتا ہو اور کوئی زبان بولتا ہو، اس طویل دور کا تصور کرے جس میں برصغیر کے لوگوں کو چوتھے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا، جبر و ظلم کی داستان جابجا بکھری ہوئی تھی، قانون کے لمبے ہاتھ ان لوگو ں کے بازوؤں میں نصب تھے جو لاقانونیت کے پرستار تھے اور جنہوں نے اس ملک کو دبوچ رکھا تھا جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اِس ملک کے جیالوں نے آزادی کا خواب نہ دیکھا ہوتا اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے قربانیاں نہ دی ہوتیں تو ممکن نہ تھا کہ1947ء  میں ہم آزاد ہوتے اور ہمیں آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع ملتا۔ جس تاریخ کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا ہے، اس میں اگر جبروظلم ہے تو اس کے خلاف آواز اْٹھانے کا حوصلہ بھی ہے، اگر غلامی ہے تو حصول آزادی کی لگن اور تڑپ بھی ہے  ہمیں دونوں باتوں کا دل کی گہرائیوں سے احساس کرتے ہوئے اپنی حالت اور حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے غلامی دیکھی ہو اور غلامی بھگتی ہو۔ چونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ آزاد ملک میں پیدا ہوئے ہیں اس لئے ہم نے نہ تو غلامی دیکھی نہ ہی غلامی بھگتی۔ چنانچہ آزادی کی صحیح قدروقیمت کا حق ادا کرنا
 ہمارے لئے مشکل ہے۔ مگر چونکہ آزادی حاصل کرنے والوں نے ہم پر آزادی کو بچائے رکھنے کی ذمہ داری عائد کی ہے اس لئے اس کی قدروقیمت کو پہچاننا شرط ِ اول ہے۔ تبھی ہم اس کا حق ادا کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آِزادی کیسے بچے؟ ا س کی حفاظت کیسے ہو؟ اس کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا انحصار حکومت پر ہے‘ حکومتی اداروں پر ہے‘ عدلیہ پر ہے‘سیاسی قیادت پر ہے وغیرہ۔یہ جواب درست ہے مگر درست ہونے کے باوجود تصویر کا محض ایک رْخ پیش کرتا ہے۔ دوسرا رْخ سمجھنے کیلئے آزادی کی معنوی ہمہ گیریت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی معنویت میں آزاد فضا میں سانس لینا ہی شامل نہیں ہے، اس میں ایک دوسرے کی آزادی کی قدر کرنا بھی شامل ہے اور آزادی پر قدغن لگانے والوں کو ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون نیزجمہوری طریقے سے روکنا بھی شامل ہے۔ اس میں حقوق حاصل کرنا اور فرائض ادا کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں سے توقع کرنے سے پہلے یا اس کے ساتھ یہ شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کی آزادی کی قدر کریں۔ تمام شہری  ایک دوسرے کی آزادی کے احترام کے ذریعہ باہمی آزادی کو مستحکم کریں جو اجتماعی آزادی کو
 پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ باہمی  یگانگت اور بھائی چارا اس کردار کو تقویت ِ مزید بخشے گا اس لئے ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے، افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کرنے، حق ِ آزادی اور حق ِ جمہوریت میں ہر ایک کی حصہ داری کو دل سے قبول کرنے اور ذمہ دار شہری بننے اور بنانے کی جانب قدم بڑھانا ازحد ضروری ہے۔ یہ ہم سب کا فرض ہے۔اکثر اوقات حقوق کی بات ہوتی ہے تب یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ حق کا دوسرا نام فرض ہے کیونکہ ایک کا حق دوسرے کا فرض اور ایک کا فرض دوسرے کا حق نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ ملک افراد سے بنتا ہے۔ افراد کے دلوں میں احترام ِ آزادی ہو تو قوم کے دل میں احترام ِ آزادی پیدا ہوگا اگر ہر شہری اس فلسفے کو اچھی طرح سمجھ لے تو ہماری آزادی زیادہ بامعنی کہلائے گی اور اس کے ثمرات بھی سب تک پہنچ سکیں گے آزاد ی صر ف غیر قوم سے جسمانی طورپر خود کو چھڑانانہیں بلکہ اصل آزادی تو یہ ہے کہ ہرقسم کی نفرتو ں،کدورتوں،برائیوں اور بددیانتی سے بھی خود کو مکمل طورپر آزاد کیاجائے چنانچہ جن قوموں نے آزادی کے اس حقیقی مفہوم کو سمجھ لیاہے  وہی قومیں آج قیادت کرتی دکھائی دیتی ہیں سو محض آزادی کی سالگرہ منانے اور چند تقریبات کے انعقاد سے کچھ بھی نہیں ہوا نئی نسل کو آزادی کی قدر کے حوالہ سے آگہی دینی ہوگی یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے آزادی کامفہوم سمجھ لیا تو غیر ملکی استعمار کے خلاف پور ے برصغیر میں تحاریک برپا کردیں قید وبند کی پروا کی نہ کی پھانسی کے پھندے اورتوپ کے دہانے ان کاراستہ روک سکے آج بھی ضرورت ہے اس امر کی اپنی آزادی کو ہی ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے معاملات طے کئے جائیں چاہے وہ اجتماعی طورپر ہویا پھرانفرادی طورپر۔