پشاور کہانی: خوابوں کی دُنیا


صوبائی دارالحکومت پشاور میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیئ آب سمیت کوڑا کرکٹ کی تلفی و صفائی کیلئے ذمہ دار ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز پشاور (WSSP)“ نامی ادارہ ”جنوری دوہزارچودہ“ میں قائم ہوا۔ اِس سے قبل پشاور شہر اور ضلع پشاور میں ’میونسپل سروسز‘ میونسپلٹی فراہم کرتی تھی‘ جسے تحلیل کر کے چار ٹاؤنز اور ایک ضلعی نگران و منتظم ادارہ بنایا گیا تاہم بعدازاں چاروں ٹاؤنز اور ضلعی ادارے سے صفائی ستھرائی‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کوڑا کرکٹ کی تلفی جیسے بنیادی کام (متعلقہ امور بھی) ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کو اِس اعلان کے ساتھ سونپ دیئے گئے کہ یہ ادارہ پشاور کی تمام 92 یونین کونسلوں میں فعال کیا جائیگا اور اُمید یہ بھی تھی کہ میونسپلٹی اور بعدازاں چار ٹاؤنز سے جن میونسپل خدمات کو ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے سپرد کیا گیا ہے مذکورہ خدمات کا معیار بہتر ہوگا لیکن عملاً ایسا نہیں ہو سکا اور یہ نتیجہئ خیال صرف عوامی رائے نہیں بلکہ یہی مؤقف پشاور سے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی کا بھی ہے‘ رواں ہفتے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی‘ فوکل پرسن برائے میگا پراجیکٹس اور احیائے پشاور نامی حکمت ِعملی کے شریک نگران (ایم پی اے) آصف خان نے ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور‘ کو پشاور شہر میں صفائی کی ناقص صورتحال‘ مسدود نکاسیئ آب اور جا بجا کچرے کے ڈھیروں کا حوالہ دیتے ہوئے ’کڑی تنقید‘ کا نشانہ بنایا تاہم یہ واضح نہیں کہ صوبائی حکومت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے قیام کو ”سنگین غلطی“ تسلیم کرتے ہوئے اِسے تحلیل کرتی ہے یا نہیں اور کیا میونسپل خدمات دوبارہ چاروں ٹاؤنز اور ضلعی بلدیاتی ادارے کو سونپ دی جائیں گی؟ لمحہئ فکریہ ہے کہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے قیام سے پہلے پشاور میں مذکورہ تین میونسپل خدمات (پینے کے پانی کی فراہمی‘ نکاسی آب کو فعال رکھنے اور کوڑا کرکٹ کی تلفی) پر اُٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے‘جون دوہزار بائیس میں پیش کئے گئے رواں مالی سال 2022-23ء کے صوبائی ترقیاتی بجٹ میں ’ڈبلیو ایس ایس پی اور ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس سی) کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے‘ اِن چھ ارب روپے سے اگر ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات ادا نہ کی جائیں تو پشاور کے کئی ایک مسائل حل ہو سکتے ہیں جبکہ تمام یونین کونسلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا نظام بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے‘ پشاور میں پینے کے پانی کی فراہمی کا انحصار زیرزمین آبی ذخیرے پر ہے‘ جس سے شہریوں کو 7 گھنٹے یومیہ پانی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن پشاور شہر کے کئی ایسے حصے بھی ہیں جہاں یومیہ ایک سے دو گھنٹے بمشکل پانی فراہم ہو رہا ہے اور ایسا ہی ایک بدقسمت علاقہ ’یونین کونسل گنج‘ ہے‘ پشاور شہر کی اِس بالائی یونین کونسل گنج کے مختلف مقامات پر ایک درجن سے زائد ٹیوب ویل نصب ہیں لیکن پانی کی ترسیل کا غیرمنظم نظام ہونے کی وجہ سے گنج‘ یکہ توت‘ لاہوری اور کریم پورہ کے کئی حصوں میں پینے کا پانی حسب ِاعلان یومیہ 7 گھنٹے فراہم نہیں ہو رہا۔ پانی کی قلت بالخصوص اُن علاقوں میں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو ڈھلوان پر ہیں‘جہاں صارفین کو بمشکل ایک سے دو گھنٹہ پانی فراہم کیا جاتا ہے‘ پانی کے ترسیلی نظام کی خرابی کے باعث زیرڈھلوان علاقے اپنے حصے سے زائد پانی لے جاتے ہیں! اندرون پشاور مذکورہ علاقوں میں پانی کی قلت کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ’ٹیوب ویلوں‘ کیلئے جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے غلط فیصلے ہیں جبکہ دوسری وجہ پانی کے ترسیلی نظام کی خرابیاں ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی علاقے میں ایک درجن ٹیوب ویل نصب ہونے کے باوجود بھی وہاں پانی کی قلت سے متعلق شکایات سننے کو نہ ملتیں‘ پہلی ضرورت صوبائی حکومت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ اور ’ڈبلیو ایس ایس سی‘ سے پشاور کے ٹیوب ویلوں کے منجملہ کوائف طلب کرے‘ اِس سلسلے میں وزیراعلیٰ پبلک ہیلتھ سے رپورٹ طلب کر چکے ہیں‘ جسے فراہم کرنے میں غیرضروری طور پر تاخیر کی جا رہی ہے‘ دوسری ضرورت پشاور شہر کی حدود میں پانی کے ترسیلی نظام کے نقشہ جات مرتب کئے جائیں اور پانی کی ترسیلی پائپ لائن زیر زمین بچھانے کی بجائے اُنہیں ظاہر رکھا جائے تاکہ چوری کے پانی کنکشنوں کا خاتمہ ہو اور کسی ایک ٹیوب ویل سے پانی کی ترسیل درست خطوط پر استوار ہو۔ ذہن نشین رہے کہ ایک ٹیوب ویل کم سے کم ایک ہزار خاندانوں کی یومیہ کفالت ممکن ہوتی ہے اور اِس تناسب سے دیکھا جائے تو پشاور کی 92 میں سے 43 یونین کونسلوں میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے کل 524 ٹیوب ویل فعال اور کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے زیراستعمال 40 ٹیوب ویل‘ گیارہ پانی ذخیرہ کرنے کی بڑی ٹینکیاں اور 39 فلٹریشن پلانٹس نصب ہیں۔ مجموعی طور پر پشاور میں سرکاری و نجی ٹیوب ویلوں کی تعداد 1400 سے زیادہ ہے جن سے ”یومیہ 800 ملین گیلن پانی“ حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ مقدار پشاور کی کل آبادی کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ توجہ طلب ہے کہ زیادہ تعداد میں ٹیوب ویلوں کی وجہ سے نہ صرف بجلی اور پانی ضائع ہو رہا ہے بلکہ زیرزمین پانی کی سطح بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن اِس بارے میں بہت کم غوروخوض کیا جاتا ہے رواں ہفتے نئے جوش و جذبے سے ’ماڈل نیبرہڈ کونسلز‘ نامی حکمت ِعملی کا اعلان کرتے ہوئے ”ڈبلیو ایس ایس پی“ کے فیصلہ سازوں کو یقین ہے کہ مقامی افراد کی شمولیت سے چنیدہ یونین کونسلوں میں صفائی کی صورتحال بہتر بنائی جائیگی اور اِس سلسلے عوام کے تعاون سے پینے کے پانی کی بچت اور حفظان صحت کے اصولوں کو بھی فروغ دیا جائیگا۔ قابل ذکر ہے کہ اِس حکمت ِعملی کیلئے اقوام متحدہ کے ذیلی عالمی امدادی ادارے ”یونیسیف (یونائٹیڈ نینشنز انٹرنیشنل چلڈرنز ایمرجنسی فنڈ)“ اور ”اسلامک ریلیف پاکستان“ نامی امدادی ادارے کے اشتراک سے عمل میں لایا جا رہا ہے ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ نے پانچ یونین کونسلوں (قائد آباد کاکشال ٹو‘ زون اے میں یوسف آباد‘ زون بی میں رشید ٹاؤن‘ زون سی میں نوتھیہ قدیم اور زون ڈی میں راحت آباد کو مثالی (ماڈل) بنانے کیلئے ’یونیسیف‘ اور ’اسلامک ریلیف‘ کے مالی تعاون سے تجرباتی اقدامات کا فیصلہ کیا ہے لیکن ماضی میں اِسی قسم کی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے‘اس پر غوروخوض ہونا چاہئے تاکہ وقت و مالی وسائل ضائع نہ ہوں۔