گزشتہ روز انفارمیشن سروس اکیڈیمی کے زیر تربیت کچھ جواں سال افسران نے ڈائریکٹر جنرل سعید جاوید کی قیادت میں روزنامہ آج، پشاور کے دفتر کا دورہ کیا، میری خوش قسمتی کہ مجھے روزنامہ آج کی انتظامیہ کی طرف سے وفد کو خوش آمدید کہنے کا موقع ملا، سعید جاوید اپنے تعلیمی کیریئر کا بڑا حصہ پشاور میں گزار چکے ہیں، پرانے ایڈورڈینز ہیں اور میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں اس لئے مجھے فورا ہی پہچان لیا اور پہلی ملاقات میں ہی ہم نے ایک دوسرے سے بہت سی باتیں بے تکلفی سے شئیر کر لیں، اس لئے میں نے وفد کے دوستوں کو خوش آمدید کہتے سمے انہیں بھی اپنے ساتھ ہی رکھا اور انہوں نے استقبالیہ کلمات کا بہت عمدہ جواب بھی دیا، اس رسمی کاروائی سے پہلے چونکہ وہ روزنامہ آج کے دفتر کی خوبصورت عمارت کی تعریف کر چکے تھے، اس لئے جب میں نے کہا کہ میں ”آج کی اس بلڈنگ میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں“ تو فورا ہی سعید جاوید نے کہا کہ واقعی یہ ”آج کی بلڈنگ ہے“ گویا یہ ایک خوبصورت ٹریبیوٹ تھا جو انہوں نے آج کے دفتر کی بہت ہی خوبصورت اور شاندار بلڈنگ کو دیکھ کر پیش کیا تھا کیونکہ انتظامیہ اور یقینا کارکنوں نے بھی ا س بلڈنگ کی خوبصورتی،صفائی ستھرائی اور رکھ رکھاؤ (مینٹینس) کو پہلے دن سے ہی ”پہلے دن ہی کی طرح“ برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس لئے سعید جاوید کو اسے روزنامہ آج کی ہی نہیں ”آج“ (جدید ترین) کی بلڈنگ قرار دیا اسی دوران پشاور پی آئی ڈی کے ڈی جی اشفاق خلیل بھی پہنچ گئے اور کمال محبت سے انہوں نے خود کو میزبانوں کی صف میں ہی رکھا۔، ایک پر تکلف ظہرانہ پر ختم ہونے والی اس سرگرمی سے وفد کے تمام دوست بہت پر جوش اور خورسند نظر آ رہے تھے، دوستان عزیز آصف نثار غیاثی اور فدا عدیل نے بہت عمدگی اور تفصیل کے ساتھ بالترتیب پرنٹ اور ڈیجیٹل ”آج“ کے بارے میں اور اعظم خان نے پرنٹنگ مشینزاور طریقہ کار کے بارے میں بریفنگ دی‘مجھے خوشی یہ بھی ہوئی کہ یہ دورہ محض کو ئی رسمی کاروائی نہ تھی بلکہ وفد کے کچھ جواں سال احباب نے مختلف سیکشنز کا دورہ کرتے ہوئے عمدہ سوالات بھی کئے ایک دو نو جوان دوستوں نے روزنامہ آج کے ”کالم کلب“ کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ ہم ایک زمانے سے اس صفحے کے اسیر ہیں انہوں نے مرحوم ظہور اعوان اور عنایت اللہ فیضی سمیت کئی کالم نگاروں کا نام لے کر بات کی،ظاہر ہے مجھے بہت اچھا لگا، مجھے یاد آیا کہ جس زمانے میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو انہوں نے ایک بار پاکستان بھر کے اخبارات کے کالم نگا روں سے ایک تفصیلی ملاقات کی تھی یہ ملاقات دراصل اس لحاظ سے بہت ہی مختلف تھی کہ عام طور پر بڑے ایوانوں میں جب جرنلسٹ دوستوں یا کالم نگاروں کو بلایا جاتا ہے تو انہیں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی جاتی ہے مگر اْس بار ایسا کچھ نہ تھا اس کے برعکس کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں سے ملکی صورت حال میں بہتری لانے کے لئے تجاویز مانگی گئی تھیں اور حکومتی پالیسی پر کھلی تنقید کی بھی دعوت دی گئی تھی، پشاور سے روزنامہ آج کے کالم نگار کی حیثیت سے میں بھی شریک محفل تھا، ہر چند روزنامہ آج کے ایک اور کالم نگار دوست مستنصر حسین تارڑ بھی شریک محفل تھے لیکن وہ لاہور کے ایک اوراخبار سے بھی وابستہ تھے۔احباب کی شب بسری کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اس طرح کے اکٹھ میں لابی میں جب صبح کے ناشتہ پر دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو کار ادب و صحافت پر خوب بات چلتی ہے، اس صبح کالم نگاری پر بات چلی اور بات ہوتے ہوتے روزنامہ آج کے کالم پیج کی شروع ہوئی اور مستنصر حسین تارڑ نے دو ٹوک کہا کہ کئی اخبارات میں کئی عمدہ کالم شائع ہوتے ہیں لیکن جتنا عمدہ اور متوازن کالم پیج ”روزنامہ آج“ پشاور کا ہے کم کم کالم پیج ایسے ہوں گے،اور جس وقت سعید جاوید روزنامہ آج کی بلڈنگ کی بات کر رہے تھے مجھے وفد کے ساتھ اس دن روزنامہ آج کی یاترا کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم معروف شاعر، افسانہ نگار اور براڈ کاسٹر مرحوم افتخار نسیم (افتی نسیم) بھی یاد آئے،وہ بھی روزنامہ آج میں کالم لکھا کرتے تھے جب ایک بار پشاور آئے تھے اور میں نے ان کے لئے اباسین آرٹس کونسل میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا، تقریب کے بعد ہم نے عشائیہ کا اہتمام نوشہرہ میں دریا کنارے کے اکلوتے بڑے ریسٹورنٹ ’ریور ویو‘ میں کیا تھا اب تو خیر سے وہاں بہت سے کھانے کے ٹھیے بن چکے ہیں، تو میں نے افتی سے کہا کہ راستے میں ”روزنامہ آج“ کا دفتر پڑتا ہے، وہاں سے ہو کے جائیں گے، بہت خوش ہوئے،باقی احباب نوشہرہ چلے گئے اور میں افتی نسیم کو لے کر روزنامہ آج کے دفتر چلا گیا افتی نسیم نے وہاں سب کی موجودگی میں کہا کہ میں نے بلا مبالغہ پچاسوں بڑے بڑے اخبارات کے دفاتر دیکھے ہیں لیکن ایسا خوبصورت،کشادہ اور دلکش دفتر کسی اخبار کا نہیں دیکھا، مجھے لگا جیسے میں اچانک امریکہ یا یورپ کے کسی بہت بڑے اخبار کے دفتر پہنچ گیا ہوں، تب مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب مرحوم عبد الواحد یوسفی (، جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت،لگن اور کمٹمنٹ سے اپنے محدد وسائل کے باوجود بہت ہی کم مدت میں ایک نئے اخبار کو مارکیٹ میں لا کر پڑھنے والوں کی ضرورت بنا دیا اور پھر تب سے اب تک اس اخبار نے کسی بھی مرحلہ پر اپنے قاری کو کبھی مایوس نہیں کیا، جب ابھی ”روزنامہ آج“ میں میگزین(کلر پیج) ابھی شروع نہیں ہوئے تھے اس وقت بھی اس کی اشاعت میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی اور پڑھنے والوں کی پہلی چوائس تھا)سے ملنے پی آئی ڈی کے مدارالمہام شاہ زمان آئے تھے اور روزنامہ آج کے دفتر کی اس شاندار بلڈنگ کا دورہ کیا تھا تو میری خوش قسمتی کہ اْس دن بھی میں مرحوم عبد الواحد یوسفی کے ساتھ تھا، پھر شاہ زمان بھی میرے دوست تھے ان سے ہمارے فیملی مراسم تھے کیونکہ ان کے بڑے بھائی عبدالرحیم میرے مرحوم بھائی سید محمد علی شاہ کے بہت گہرے دوست تھے۔ سو میری ان سے بے تکلف دوستی تھی، اس لئے جب انہوں نے کہا کہ میں عبد الواحد یوسفی کی شخصیت اور پیشہ ورانہ صلاحیت کا معترف ہوں تو میں نے کہا بس مجھ میں اور آپ میں یہی فرق ہے کہ آپ ان کے معترف ہیں اور میں ان کا معتقد ہوں تو بہت انجوائے کیا تھا اور جس وقت ہم بلڈنگ کی کشادہ چھت پر پہنچے تو انہوں نے مرحوم عبدالواحد یوسفی سے بڑے پر جوش انداز میں کہا تھا کہ میرے بس میں ہوتو اس شاندار بلڈنگ کے ماتھے پر جلی حروف میں ”قلمروئے یوسفی“ لکھوا دوں۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ عبدالواحد یوسفی ایک درویش صفت شخصیت ہیں اللہ کے فضل وکرم اوران کی اپنی محنت اور محبت روزنامہ آج کی شکل میں اخبارات کی دنیا کا ایک بہت ہی مقبول اور معتبر و مستند نام سہی مگر خود وہ اس ابن ِ انشا کی طرح تھے جس نے دو ٹوک انداز میں اپنی ایک نظم کے آخری بند میں کہا ہے۔
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
۔۔۔ سب ما یا ہے۔۔