محکمہ موسمیات پشاور مرکز کے سربراہ (ڈائریکٹر) مشتاق علی خان کے مطابق ”حالیہ تباہ کن بارشوں کے علاوہ ضلع چترال میں ”برفانی جھیلوں کے پھٹنے“ سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوئی اور یہ چترال کے لئے ایک نئی بات ہے۔ اندیشہ ہے کہ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے برفانی تودوں اور جھیلوں سے بیک وقت بہت سا پانی جاری ہونے کے واقعات اور اثرات مستقبل قریب میں بھی رونما ہوں گے۔“ ذہن نشین رہے کہ حالیہ سیلاب سے ضلع چترال میں تقریباً چالیس بڑے اور دو سو سے زیادہ چھوٹے پل بہہ گئے ہیں۔ صوبائی امدادی ادارے (پی ڈی ایم اے کے مرتب کردہ جزوی) اعدادوشمار سے اخذ اندازے کے مطابق مجموعی طور پر چترال میں 175مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں جبکہ 200 سے زائد مکانات کو جزوی نقصان پہنچا۔ تحصیل لٹکوہ کے تین قصبے گرم چشمہ‘ آرکاری اور کریم آباد کئی روز تک ناقابل رسائی رہے جبکہ بجلی اور پانی کی فراہمی کا نظام بھی تباہ ہو گیا ہے اور چترال کے مذکورہ و دیگر علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی (UNDP)‘ کے زیرانتظام چترال میں برفانی جھیلوں اور برفانی تودوں کے پگھلنے (پھٹنے) سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے ایک خصوصی مطالعاتی اور آگاہی مہم کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا ہے جسے ”گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GOLF-II)“ کا نام دیا گیا ہے اور اِس حکمت عملی کے تحت بالائی (اَپر) چترال میں ضلعی سطح کے سٹیک ہولڈرز سے مابین تعاون (کوآرڈینیشن) اور کمیونیکیشن (رابطہ کاری) بڑھانے کے لئے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا تاکہ مذکورہ حکمت عملی (منصوبے) کے مقاصد اور کامیابیوں کو اُجاگر کیا جا سکے اور مقامی افراد اور حکومتی محکموں سے فوری کاروائی کے لئے طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔ نشست میں ضلعی انتظامیہ‘ محکمہ سماجی بہبود‘ محکمہ جنگلات‘ پی ڈی ایم اے‘ محکمہئ آبپاشی‘ ریسکیو 1122اور مقامی افراد پر مشتمل ’ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کمیٹی‘ کے اراکین شریک ہوئے جبکہ اس سے قبل اس طرح کی 2 ورکشاپس لوئر چترال اور اپر دیر میں منعقد ہو چکی ہیں۔ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے مجموعی اثرات میں تخفیف کے اقدامات ہر نشست کا مرکزی خیال ہوتا ہے جس پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ چترال کی وادیئ ریشون سب سے زیادہ غیر محفوظ وادیوں میں سے ایک ہے‘ جو حالیہ سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور اگر ضلع چترال سمیت دیگر بالائی علاقوں میں ”قبل از وقت وارننگ سسٹم“ نصب کیا جائے تو مقامی افراد کو سیلاب کے بارے بروقت آگاہی حاصل ہو سکتی ہے اور جانی و مالی نقصانات ختم کئے جا سکتے ہیں۔ بالائی اور زیریں چترال کی تین انتہائی غیر محفوظ وادیوں کے علاوہ بھی کئی دوسری ایسی وادیاں ہیں جو اتنی ہی غیر محفوظ ہیں اور اِن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔بالائی چترال میں بارشوں اور سیلاب کے بعد اب طویل برفانی سردیوں کا دور آہستہ آہستہ شروع ہو رہا ہے۔ دور افتادہ وادی ”یارخون“ میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کو خوراک کی کمی اور پناہ گاہوں کی عدم دستیابی کا سامنا ہے اور زمینی راستوں سے رسائی مشکل ہونے کی وجہ سے اُن تک امداد بھی نہیں پہنچ پا رہی۔افغانستان سے متصل معروف ’واخان راہداری‘ کے قریب واقع بروغل میں صورتحال مزید تشویشناک بتائی جاتی ہے جہاں سے اطلاعات ہیں کہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے علاقے کی واحد سڑک کی بندش کی وجہ سے بارش سے تباہ شدہ مکانات میں رہنے والے اور کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو گئی ہیں۔ سال 2007ء سے بریپ کے دو نالوں میں برفانی جھیل کا سیلاب اِس گاؤں کا کم و بیش”ستر فیصد“ حصہ بہا لے گیا تھا اور رواں سال مزید 52خاندانوں کو سیلاب نے ’بے گھر‘ کر دیا ہے۔سیلاب نے اِس گاؤں کے پچاس دیگر مکانات کے ساتھ ساتھ طالبات کے ایک سرکاری ہائی سکول کی عمارت کو بھی ناقابل استفادہ بنا دیا ہے اور اس کے علاؤہ کھڑی فصلوں اور باغات کو بھی نقصان پہنچا ہے جہاں سے مقامی لوگ ہر سال معقول آمدنی حاصل کر لیا کرتے تھے مزید یہ کہ اچانک ندی میں آئے سیلاب نے ”خز“ نامی علاقے میں آٹھ اُور ”پاوور“ نامی علاقے میں چودہ خاندانوں کو بے گھر کیا ہے۔ کئی دیگر دیہاتوں میں پانی کی سپلائی لائنیں اور مائیکرو ہائیڈل پاور سٹیشن تباہ ہو گئے جس سے صارفین کو پینے کے پانی اور بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی۔ اِسی طرح بریپ ویلج کونسل سے اطلاع ہے کہ وہاں کے کئی خاندان گزشتہ ایک ماہ سے خیموں میں قیام پذیر ہیں اور اُن کے پاس اشیائے خوردونوش (راشن) کی کمی ہے جبکہ موسم سرما دستک دے رہا ہے۔ اِن متاثرین کو بھی تاحال حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں ملی۔ بے گھر ہونے والے خاندان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن انہیں سردیوں کے موسم سے پہلے پناہ گاہوں اور راشن کی ضرورت ہے۔ حکومتی اور غیرحکومتی امدادی اداروں کو پہلی برفباری شروع ہونے سے پہلے تیار مکانات‘ ایندھن اور راشن کا بندوبست کرنا چاہئے۔ جن لوگوں کے گھر سیلاب سے محفوظ تھے ان کے کھیتوں کے ساتھ فصلیں اور پھل دار درخت ضائع ہو گئے ہیں اور ایسے متاثرین کو بھی اپنی زرعی معیشت و معاشرت بحالی کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔توجہ طلب ہے کہ عالمی بینک کی جاری کردہ رپورٹ (پاکستان دی ٹرانسفارمیٹو پاتھ) میں کہا گیا ہے پاکستان اُن موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کے لئے وہ ذمہ دار نہیں اور اب یہ عالمی ذمہ داری بنتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک پاکستان کی اِس مشکل گھڑی میں مدد کریں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ”بے رحم سیلاب“ آیا ہو بلکہ سال دوہزار دس‘ دوہزارگیارہ اور دوہزاربیس میں بھی اِسی قسم کے سیلاب آ چکے ہیں۔“ ورلڈ بینک کے لئے بھی کئی عالمی تنظیموں نے اپنی رپورٹوں میں ’موسمیاتی تبدیلی‘ اور اِس کی شدت کا ذکر کیا جیسا کہ ”یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس“ کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال پاکستان میں مجموعی طور پر سالانہ اوسط سے 780 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں اور اِس قدر بارشوں کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کی صورتحال جو پہلے ہی سے موجود تھی اُس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔