مغربی معاشروں میں ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے شہری ترقی سے متعلق ترجیحات کے تعین اور اِس بارے اتفاق رائے پیدا کرنے کے علاوہ معلومات‘ شعور اور آگاہی پھیلانے جیسے اہداف بڑی کامیابی اور حسب ِتوقع مثالی انداز سے حاصل کئے جا رہے ہیں اور ایک ایسا ذریعہ جو کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کی حکومتوں کے لئے دردسر بنا ہوا ہے اور جسے اکثر ’باعث ِتخریب‘ سمجھا جاتا ہے لیکن ترقی یافتہ معاشروں میں جہاں ٹیکنالوجی سے متعلق خواندگی کی سطح بلند ہے وہاں سوشل میڈیا کے بہت سے کارآمد پہلو تشکیل کئے گئے ہیں جنہیں پاکستان میں یکسر نظرانداز کیا گیا ہے اور اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ ’بے لگام‘ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اس کی بدنامی کا باعث ہیں اور اب سوشل میڈیا اُس مقام تک جہاں پہنچا ہے جہاں یہ سماج کے کسی بھی طبقے کے لئے قابل اعتبار نہیں رہا۔ سوشل میڈیا امکانات کا ایک جہان ہے۔ اِس کے ذریعے کسی علاقے یا پورے شہر کی ٹریفک کو منظم اور فعال رکھنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔
ٹریفک کے متبادل راستوں یا موسم کی صورتحال کے بارے شہریوں کو فوری طور پر خبردار کیا جاسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم سے متعلق فوری آگاہ کرنے اور شہری وسائل کا غلط استعمال کرنے والوں کی خبرگیری کے لئے حکومتی اداروں کو مطلع کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سبھی امکانات اپنی جگہ گل سڑ رہے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ جو لوگ نازیبا یا غیراخلاقی تبصرے کرتے ہوئے پائے جائیں گے ان کا متعلقہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے پتہ لگایا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے۔ یہ انتباہ سوشل میڈیا پر تبصرے کے سیکشن کے اکثر فحش اور نامناسب زبان سے بھرے پائے جانے کے بعد جاری کیا گیا لیکن کیا اس طرح کے انتباہ سے اس عمل کو روکا جا سکتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کی صفت یہی ہے کہ اِس میں صارفین کے پاس اظہار کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی دنیا میں ”ٹرولنگ“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو اپنی ساخت میں ایک بالکل الگ چیز ہے اور اگر صارفین کا کوئی گروہ‘ ایک دوسرے سے مل جل کر کسی کی کردار کشی یا لعن طعن یا دھمکی آمیز کلمات کہتا ہے تو اِس قسم کے طرز عمل (ٹرولنگ) کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے۔ عوام کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس کے ذریعے عوام و خواص دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور اِسے اکثر ”عوامی احتساب کا پلیٹ فارم“ بھی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے ثمرات تب ہی سامنے آئیں گے جب اس کا استعمال مناسب طریقے سے ہو اور اس ضمن میں عوام میں شعور اجاگر کیا جائے۔
’سوشل میڈیا‘ ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی نہیں بلکہ اِس کے ثمرات اُسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ سوشل میڈیا کے وسائل صرف اپنی ’سب اچھا کارکردگی‘ اُجاگر کرنے کے لئے بروئے کار نہ لائیں جائیں بلکہ اِس سے عوام کی جانب سے مسائل کی نشاندہی اور تجاویز کا بھی خاطرخواہ سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے۔ طرزحکمرانی میں بہتری کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ وفاقی اور صوبائی فیصلہ ساز سرکاری محکموں کی سوشل میڈیا پر کارکردگی کا بھی احتساب کریں اور اُن کی جانب سے سوشل میڈیا صارفین کی شکایات و تجاویز پر فوری عمل درآمد کو لازم قرار دیں۔ مثال کے طور پر اگر شہر کے کسی حصے میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں یا شجرکاری ہو رہی ہے یا خوبصورتی بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو اِس سے متعلق سوشل میڈیا صارفین کی رائے اور اُن کی جانب سے دستاویزی نگرانی کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے۔ اعلیٰ و ادنیٰ سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے اصلاحی استعمال کے پہلوؤں اور فوائد کی تعلیم و تلقین سے بہرہ مند کرنے کے علاوہ اور دادرسی کے اِس نظرانداز محاذ پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔