خیبرپختونخوا میں حالیہ خوفناک سیلاب اور بارشوں کے سبب اُن دیہی علاقوں کی معیشت و معاشرت بُری طرح متاثر ہوئی ہے جہاں پہلے ہی بنیادی سہولیات انتہائی بنیادی شکل و صورت میں دستیاب تھیں موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ اظہار نے خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں کم و بیش گیارہ سو سرکاری سکولوں کو کلی یا جزوی طور پر نقصان پہنچایا ہے جسکی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کی پڑھائی (درس و تدریس) متاثر ہوئی ہے‘اِن نقصانات کے بارے میں محکمہئ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق سیلاب سے 246 سکولوں کو مکمل جبکہ 838 سکولوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان سرکاری پرائمری سکولوں کو ہوا ہے۔ محکمہئ تعلیم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 205 پرائمری سکول مکمل اور 683 کو جزوی نقصان پہنچا ہے‘اسی طرح مکمل طور پر تباہ ہونیوالے مڈل سکولوں کی تعداد چودہ اور جزوی طور پر تباہ ہونیوالے مڈل سکولوں کی تعداد باسٹھ ہے سیلاب سے اُنیس سرکاری ہائی سکولوں کو بھی مکمل جبکہ 74 کو جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ مکمل طور پر تباہ ہونیوالے سرکاری ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعداد آٹھ ہے اور اُنیس کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت تعمیر ِنو کے عمل کیلئے عطیہ دہندگان سے مدد طلب کر رہی ہے۔ صوبائی محکمہئ تعلیم کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق صوبے کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ سیلاب سے کلی و جزوی متاثرہ تمام سکولوں کی بحالی کر سکے چونکہ تعلیم کا تعلق وقت سے ہوتا ہے اور اگر بروقت اِن تعلیمی اداروں کو بحال نہ کیا گیا یا متبادل کے طور پر تدریسی سہولیات فراہم نہ کی گئیں تو اندیشہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں طلبہ کے آنیوالے کئی تعلیمی سال ضائع ہو جائیں گے! جو سیلاب سے ہوئے نقصانات سے زیادہ بڑا نقصان تصور کیا جارہا ہے اِسی طرح جو 246 سکول سیلاب سے مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں اُن میں زیرتعلیم طلبہ کی اکثریت اگر تعلیم کو خیرباد کہہ دے تو اِس پر کسی کو تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک طرف سیلاب سے متاثرہ معیشت کی بحالی پیش نظر ہے تو دوسری طرف تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی بھی ترجیحات میں شامل ہے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طلبہ کے ’ڈراپ آؤٹ‘ کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم کی فراہمی کے متبادل طریقوں پر فوری عملدرآمد کیا جائے‘ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے بھی ایک جائزہ رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کے مطابق خیبرپختونخوا کے ایک کروڑ سترہ لاکھ (11.7ملین) بچوں میں سے 39فیصد پانچ سے سولہ سال کی عمر کے ہیں اور بچوں کی یہ تعداد وہ ہے جو سکول نہیں جا رہی یہ سروے جو ’بی آئی ایس پی‘ کی قومی سماجی و اقتصادی رجسٹری مردم شماری کے طور پر ایلیمنٹری اور سیکنڈری سکول کے اساتذہ کی مدد سے تیار کیا گیا تھا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سکول نہ جانیوالے بچوں کی کل تعداد 47 لاکھ ہے۔ ان میں سے دس لاکھ سکولوں سے باہر بچوں کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے صوبائی محکمہئ تعلیم کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب نے خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ’ڈیرہ اسماعیل خان‘ کو شدید متاثر کیا ہے جہاں جانی و مالی نقصانات صوبے کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں زیادہ ہوئے ہیں اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں اکیاون سرکاری سکولوں کو مکمل اور ایک سو پینتالیس کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے دیر لوئر میں سینتیس مکمل اور ننانوے جزوی‘ لوئر کوہستان میں پچیس مکمل اور سات جزوی‘ سوات میں بیس مکمل اور ایک سو دو جزوی‘ ٹانک میں اٹھارہ مکمل اور ایک سو تین جزوی‘ بالائی چترال میں دس مکمل اور پچیس جزوی‘ بالائی کوہستان میں دس مکمل اور چھ جزوی‘ مانسہرہ میں دس مکمل اور چھتیس جزوی‘ نوشہرہ میں دس مکمل اور چھتیس جزوی جبکہ ضلع ہری پور میں چودہ سکولوں کو مکمل اور نو کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوں (درابن‘ کلاچی اور پروا) میں واقع زیادہ تر سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں لیکن ایسے سکول بھی ہیں جنکی عمارتیں ابھی تک کیچڑ سے بھری ہوئی ہیں اُن کی چھتوں تک پانی کھڑا ہے جسکی وجہ سے یہ عمارتیں ناقابل استفادہ ہیں‘محکمہئ تعلیم سکولوں کی عمارتوں اور سکولوں سے باہر کے علاقوں سے کیچڑ ہٹانے میں بے بس ہے‘ ڈیرہ میں متبادل سکولوں کے قیام کیلئے یونیسف کی مدد سے خیموں کا انتظام کیا جا رہا ہے اِن خیمہ سکولوں کو اُن علاقوں میں نصب کیا جائیگا جہاں کی سکول عمارتیں ناقابل استعمال ہیں یعنی وہ یا تو پانی اور کیچڑ سے بھری ہوئی ہیں یا پھر سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں علاوہ ازیں محکمہئ تعلیم متبادل بندوبست کے طور پر ’کرائے کی عمارتوں‘ کا بھی بندوبست کر رہا ہے جو یقینا آسان کام نہیں۔ حکومت سکولوں کی تعمیر نو کیلئے مالی وسائل (فنڈز) کا بندوبست کرنے کیساتھ مکمل طور پر تباہ ہونیوالے سکولوں کے طلبہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اُور پناہ گاہیں بنانے جیسے مختلف آپشنز پر بھی کام کر رہی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سرکاری ترقیاتی عمل اپنے معیار اور کام کاج کی رفتار کے لحاظ سے غیرپائیدار اور سست رو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی سکیموں کیلئے مختص فنڈز اگر روایتی طریقے سے خرچ کئے گئے تو تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نو اور جزوی طور پر بحالی کے عمل میں سال نہیں بلکہ دہائیاں لگیں گی۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں دوبارہ سکول تعمیر کرتے ہوئے ایسی بلند جگہوں کا انتخاب کیا جائے تو آئندہ سال مون سون سیزن کے دوران بارشوں اور سیلاب کے فوری اثرات سے نسبتاً محفوظ ہوں۔ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ’یونیسیف‘ خیبرپختونخوا میں تعلیمی سرگرمیوں کی فوری بحالی کیلئے دلچسپی لے رہا ہے اور تباہ شدہ سکولوں کیلئے پہلے سے تیار شدہ ڈھانچے تعمیر کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے یونیسیف نے تعلیم کے شعبے میں جاری دیگر منصوبوں سے تقریباً پچاس کروڑ روپے لیکر اِن مالی وسائل کا استعمال سکول عمارتوں کی تعمیر نو پرکرنے کا فیصلہ کیا ہے صوبائی حکومت تعمیر نو کے عمل میں مزید مالی و تکنیکی مدد حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے’خیبر پختونخوا‘ کیلئے تن تنہا موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت کرنا ممکن نہیں اِسلئے خیبر پختونخوا کی نظریں ہنگامی حالات اور موجودہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی پر مرکوز ہے۔