پہلا نکتہ: دنیا کے 167 ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ اِن ممالک میں جمہوریت نامی طرزحکمرانی کی صورتحال اُور ملک و قوم کو اِس سے پہنچنے والے ثمرات کے حوالے سے سالانہ عالمی رپورٹ جاری کے مطابق پاکستان سال دوہزاراکیس میں ’104ویں‘ نمبر پر فائز ہے۔ (رواں سال یعنی دوہزار بائیس سے متعلق ’اکنامسٹ انٹلیجنس یونٹ‘ کی مرتب کردہ عالمی درجہ بندی آئندہ برس یعنی دوہزارتیئس میں جاری کی جائے گی تاہم نئی درجہ بندی میں بھی پاکستان سے متعلق طرزحکمرانی کی بہتری کا امکان کم ہے۔) ذہن نشین رہے کہ جنوب ایشیائی ممالک میں بھارت اُور سری لنکا میں جمہوریت نسبتاً بہتر شکل و صورت میں ملک و قوم کی توقعات پر پورا اُتر رہی ہے۔ جمہوری عالمی درجہ بندی کے مطابق بھارت 46ویں جبکہ سری لنکا 67ویں درجے پر فائز ہے۔دوسرا نکتہ: پاکستان کے لئے ’جمہوریت‘ مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی وجہ ہے اُور اگر ایک عام آدمی کے نکتہئ نظر سے دیکھا اُور سمجھا جائے تو جمہوریت کسی ”خوشنما نعرے“ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اُور یہی وجہ ہے کہ اِسے سراب سمجھا جاتا ہے اُور جب تک پاکستان خواندگی و شعور کی اُس بلندی تک نہیں پہنچ جاتا جہاں ہر ایک ووٹ ”شعوری فیصلہ“ اُور ”ذمہ داری“ سمجھ کر ادا کیا جائے اُس وقت تک جمہوریت کی دلدل چند گھرانوں اُور شخصیات کو حاصل فائدہ جاری رہے گا۔ پاکستان میں جمہوری کارناموں کی تاریخ میں ہر انتخاب کے بعد ایک نئے باب کا اضافہ ہو جاتا ہے جو درحقیقت ملک میں بدعنوانی اُور قومی وسائل کی اندھا دھند لوٹ مار کا مجموعہ ہے! توجہ طلب ہے کہ جمہوریت کے بارے میں عوامی رائے (ڈیموکریسی پرسیپشن انڈیکس“ نامی عالمی جائزہ رپورٹ (سروے) میں سال دوہزاربائیس کے لئے عام آدمی (ہم عوام) سے چند سوالات پوچھے گئے جن کی روشنی میں ’پاکستانی جمہوریت‘ کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ ”88 فیصد“ پاکستانیوں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی ہے حالانکہ 88فیصد سے زائد پاکستانیوں کا مسئلہ ’آزادیئ اظہار‘ ہے ہی نہیں! اُور دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس 88فیصد ’آزادیئ اظہار‘ پر تالیاں بجائی جا رہی ہیں اُس کے ذریعے پاکستان کا کونسا چھوٹا بڑا‘ قومی یا صوبائی‘ ضلعی یا علاقائی مسئلہ ’آج تک (ستر سالہ تاریخ میں) حل ہوا ہے؟ مذکورہ سروے میں کہا گیا ہے کہ ”79فیصد“ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں اگر ”79 فیصد“ حقیقتاً سمجھتے کہ پاکستان میں عام انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں تو ووٹ ڈالنے کی شرح کسی بھی صورت بمشکل پچاس فیصد نہ ہوتی اُور کئی ایسے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں حکومت سازی کی گئی جب انتخابی حلقوں کے نتائج تیس فیصد یا اِس سے بھی کم تھے! یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس کے لئے انتخابات میں ملک کی نصف یا اِس سے زیادہ آبادی کنارہ کشی کر چکی ہے!؟ پاکستان میں جمہوریت سے متعلق جس جائزے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اُس کا تیسرا ’ناقابل فہم‘ نکتہ یہ ہے کہ ”74 فیصد“ پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں تمام طبقات کے ساتھ بالعموم یکساں سلوک ہوتا ہے حالانکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون و انصاف تک اُن طبقات کے لئے ناقابل رسائی‘ مہنگی‘ مشکل‘ پیچیدہ اُور طویل ہے جن کا تعلق غریب طبقات سے ہے۔علاؤہ ازیں سطحی جائزہ رپورٹ کا یہ نکتہ حقیقت کے کچھ قریب ہے کہ ”46 فیصد“ پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ایک عام شہری بھی ملک پر حکومت کر سکتا ہے۔ گزشتہ سال یہ شرح ”60 فیصد“ اُور دوہزاراٹھارہ میں ”70فیصد“ جیسی بلند سطح تک جا پہنچی تھی۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کے لئے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینا ممکن ہی نہیں رہا اُور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی حلقہ بندیاں اِس قدر وسیع و عریض رکھی گئی ہیں کہ صرف عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے ہی بطور اُمیدوار سامنے آ سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں صوبائی دارالحکومت پشاور کی مثال سے پورا منظرنامہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ضلع پشاور (کے دیہی علاقوں پر مشتمل) قومی اسمبلی کی 5 نشستیں (این اے ستائیس تا اکتیس) ہیں لیکن ضلع پشاور (کے شہری علاقوں کے حصوں کا) قومی اسمبلی کی پانچ میں سے صرف چار نشستیں (این سے ستائیس‘ اٹھائیس‘ تیس اُور اکتیس) ہی احاطہ کرتی ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے این اے 29 سب سے بڑی جبکہ این اے 31 سب سے چھوٹی ہے اُور یہی صورتحال صوبائی اسمبلی کی بھی ہے جبکہ مقامی حکومتوں کے لئے ضلع پشاور کی 92 یونین کونسلیں 130 نیبرہڈ کونسلوں اُور 216 ویلیج کونسلوں یعنی مجموعی طورپر 346 انتظامی و آبادی کے مراکز پر مشتمل ہیں اُور اگر اِن سب کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جائے تو کوئی صورت نہیں بنتی۔ توجہ طلب ہے کہ رواں برس کے آخر میں شروع ہونے والی نئی مردم شماری کے بعد انتخابی حلقہ بندیوں میں بھی ردوبدل ہو گا اُور یہی وہ موقع ہوتا ہے جس میں سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کے لحاظ سے علاقوں کو تقسیم کرتی ہیں تاکہ اُنہیں عام انتخابات لوٹنے میں زیادہ مشکل (زحمت) نہ ہو لیکن اِس ردوبدل سے بحیثیت ووٹر ایک عام آدمی پر یہ فرق پڑتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی تبدیلی پر احتجاج کرتے ہوئے کسی دور دراز کے نئے پولنگ مرکز پر نہیں جاتا اُور یوں حزب اقتدار اپنی اُس کوشش میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے جسے پاکستانی جمہوریت میں ’انتخابی منصوبہ بندی (الیکشنز اسکیم)‘ کہا جاتا ہے! بہرحال صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی جمہوریت خطرے میں ہے اور عوام کی مرضی کی نمائندگی کرنے والے عام آدمی (ہم عوام) سے اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ گیلپ انٹرنیشنل کے ایک سروے میں‘ مغربی یورپ اور شمالی امریکہ سمیت تقریباً پچاس ممالک کے رہنے والوں کی اکثریت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہاں جمہوری حکومتیں تو قائم ہیں لیکن قومی فیصلے عوام کی مرضی کے مطابق نہیں ہو رہے۔ سیدھا سادا اصول ہے کہ اگر کسی ملک میں مہنگائی و بیروزگاری میں کمی اُور عوام کی خدمت کرنے والے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں ہر دن بہتری نہیں آ رہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ”طاقتور کی مرضی“ چل رہی اُور طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں رہے جبکہ عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والوں کا ”بول بالا“ ہے!