پشاور میں پھل (فروٹ) کی فروخت کا کاروبار انتہائی غیرمنظم ہے اور سائنسی بنیادوں پر مرتب نہ ہونے کی وجہ سے اِس ’بے ترتیب دھندے‘ کی وجہ سے پھل بڑی مقدار میں خراب بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں موسمی اثرات اور گردوغبار سے بچایا نہیں جاتا۔ ذہن نشین رہے کہ سبزی و پھل کو ایک مرتبہ حاصل کرنے کے بعد اس کے اندر کیمیائی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اگر کسی بھی چیز بشمول پھل یا سبزی کو گرم جگہ پر رکھنے سے یہ کیمیائی عمل زیادہ تیزی سے سرانجام پاتا ہے اور سبزی و پھل کی عمر کم ہو جاتی ہے۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں ہتھ ریڑھیاں زیادہ بڑی تعداد میں پھل فروخت کرنے کا ذریعہ ہیں صوبائی دارالحکومت پشاور میں سردی کی دستک کے ساتھ ہی کوہاٹ کے خوش ذائقہ اور خوشبودار ’امرود‘ کی فروخت ہو رہی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ پشاور کے جنوب میں ’کوہاٹ‘ کا فاصلہ بمشکل 70کلومیٹر ہے اور کوہاٹ کی مخصوص آب و ہوا اور میدانی علاقے کی مٹی کی خصوصیات کچھ ایسی ہیں کہ کوہاٹ جیسے خوش ذائقہ و خوشبودار ’امرود‘ملک کے کسی دوسرے حصے میں نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ کوہاٹ کے امرودوں کی مانگ دنیا بھر میں ہے اور لوگ اِسے بطور سوغات بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ علاؤہ ازیں کوہاٹ کے اِسی خوش ذائقہ و خوشبودار امرود کی کشش میں غیرملکی کاروباری ادارے (ملٹی نیشنل کمپنیوں) بڑے پیمانے پر امرود خرید کر ان کا گودا (pulp) کشید کرتی ہیں اور پھر اِس گودے کو پاکستان اور بیرون ملک فروخت کر کے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں جس کا عشر عشیر فائدہ بھی کوہاٹ کے باغبانوں یا خیبرپختونخوا کے خزانے کو نہیں پہنچتا۔ اِس سلسلے میں ایک شاطرانہ چال یہ چلی جاتی ہے کہ کوہاٹ سے امردو کی خریداری کرتے ہوئے باغات کا اجارہ نہیں کیا جاتا بلکہ مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر خریداری کر لی جاتی ہے اور یہ خریداری بذریعہ فون کرتے ہوئے پھل بذریعہ ٹرک وصول کر لیا جاتا ہے۔
اِس طرح خیبرپختونخوا کی حکومت کو کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ضلع کوہاٹ میں درہ آدم خیل کی حدود سے شروع ہونے والا میلوں پر علاقہ غیرآباد پڑا ہوا ہے جہاں امرود کے باغات لگائے جا سکتے ہیں اور اگر صوبائی حکومت اِس غیرآباد زمین کے ٹکڑے زرعی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو پچاس سال کے اجارے پر دے اور ’امرود‘ کی نئی اقسام اور اِس پھل کو موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے پر تحقیق کی سرکاری سرپرستی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوہاٹ کا امرود پوری دنیا پر راج کرے اور زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ثابت ہو۔ المیہ ہے کہ ہمارے قومی فیصلہ ساز چند ارب ڈالر کیلئے عالمی طاقتوں کے سامنے کشکول پھیلاتے ہیں لیکن اپنے ہاں زرعی پیداواری امکانات پر نظر نہیں کرتے جس کے ذریعے چند ارب ڈالر نہیں بلکہ سینکڑوں ارب ڈالر کمائی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس بشمول پھل قدرتی ماحول کی وجہ سے کچھ ایسی خصوصیات بھی رکھتے ہیں جو اِن کے ہم عصر دیگر ممالک کے پھلوں میں نہیں ہوتی لیکن اِس خصوصیت (خوبی) کا خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ زرعی تحقیق کے صوبائی ادارے کی جانب سے ’ترناب فارم‘ میں پھلوں کے رس بنانے کے طریقوں کی تربیت دی جاتی ہے لیکن جب تک تربیت مکمل کرنیوالوں کو کاروبار شروع کرنے کے لئے مالی امداد اور ٹیکنالوجی فراہم نہیں کی جائے گی اس وقت تک ایسی کسی بھی کوشش سے خاطرخواہ نتائج حاصل کرنے کی امید نہیں رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
امرود کیا ہے اور امرود کیوں کھانا چاہئے؟ ایک وقت تھا جب پشاور کے گلی کوچوں میں کٹے ہوئے امرودوں پر ’چاٹ مصالحہ‘ چھڑک کر فروخت کرنے والے آوازیں لگایا کرتے تھے اور یہ روایت آج بھی مختلف انداز میں زندہ ہے کہ اہل پشاور امرود کو دیگر پھلوں کے ساتھ ملا (mix) کر نہیں بلکہ واحد پھل کے طور پر اِسی طرح کھانا پسند کرتے ہیں۔ اچھے معیار کا امرود جو عموماً پچاس ساٹھ روپے فی کلو گرام مل جایا کرتا تھا اِس سال ایک سو سے ڈیڑھ سو روپے فی کلوگرام مل رہا ہے تاہم پھل کی اِس گرانی کے باوجود امرود کی مانگ میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی اور یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والا پھل ہے جو صرف منہ کا ذائقہ ہی دوبالا نہیں کرتا بلکہ اس میں ایسے غذائی اجزأ بھی ہیں جو اس پھل کو جسمانی‘ ذہنی و اعصابی صحت کے لئے بہترین بناتے ہیں۔ امرود ”وٹامن سی“ سے بھرپور ہوتے ہیں۔
طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ امرود سرطان کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ بلڈپریشر کے مریض امرود پر نمک چھڑک کر نہ کھائیں‘امرود کی امرود کی ایک اور خصوصیت ’بینائی کی بہتری بتائی جاتی ہے کیونکہ امرود میں ”وٹامن اے“ پایا جاتا ہے جو آنکھوں کی صحت کیلئے بہترین ’خوراک ہے۔ یہ پھل نہ صرف عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی میں آنے والی تنزلی سے تحفظ دیتا ہے بلکہ بینائی بہتر بھی کرتا ہے اور بالخصوص موتیے کے مرض کی رفتار کو بھی سست کرتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ آج ہر کوئی ذہنی تناؤ اور دباؤ سے نجات چاہتا ہے اور اِس کے لئے مستقل بنیادوں پر ادویات استعمال کی جاتی ہیں لیکن اگر ’امرود‘ کھانے کو آزمایا جائے تو اِس میں موجود میگنیشم‘ پٹھوں اور اعصاب کو پرسکون رکھنے میں مدد دیتا ہے لہٰذا دن بھر کی مصروفیت کے بعد اگر چند امرود کھا لئے جائیں تو اِس سے جسم کی توانائی فوری بحال ہو سکتی ہے۔
امرود ایک ”دماغی پھل“ بھی ہے کیونکہ اِس میں ”وٹامن بی‘ وٹامن تھری اور وٹامن بی سکس“ پائے جاتے ہیں جو دماغ سے جسم میں خون کی روانی اور جسم میں خون کی فراہمی کے نظام کی اصلاح کرتے ہیں کوہاٹ کے ہنگو ہائی وے پر واقع گاؤں ’کاغزئی‘ میں امرود کے ساڑھے چار سو سے زائد باغات ہیں‘ جن سے حاصل ہونے والا پھل ملک کے مختلف حصوں کو ارسال کیا جا رہا ہے۔ کاغازئی پھل‘ جو امرود کے ایک مخصوص ذائقے اور خوشبو کے لئے مشہور ہے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا ہے اور پھل کی قدر و اہمیت سمجھنے والے اِس کا سارا سال انتظار کرتے ہیں! محکمہ زراعت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”کوہاٹ میں امرود کے باغات ساڑھے تین ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن کاغذزئی میں دیگر علاقوں کی نسبت جہاں کبھی زیادہ باغات ہوا کرتے تھے رہائشی منصوبوں کے باعث امرود کے باغات کا رقبہ کم ہو رہا ہے‘ جنہیں بچانے کیلئے صوبائی فیصلہ سازوں کو توجہ دینی چاہئے۔