ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں ایک دفعہ چور گھس آئے‘مالک مکان نے کلاشنکوف اٹھائی تو چور خوفزدہ ہوکر واردات کئے بغیر بھاگ گئے۔تھوڑی دیر بعد پولیس ان کے گھر آگئی اور مالک مکان کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ مالک مکان نے بتایا کہ انہوں نے جو اسلحہ چوروں کو دکھایاتھاوہ نقلی اور پلاسٹک کلاشنکوف ہے جو وہ بچوں کے لئے لایا تھا‘پولیس والے مطمئن ہوکر چلے گئے۔پولیس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد چور واپس آگئے اور سارا گھر لوٹ کر لے گئے‘ہم تو اس واقعے کو لطیفہ سمجھ رہے تھے مگر ہمارے کرائمز رپورٹر کا دعویٰ ہے کہ حقیقت میں ایسا ہوا ہے کیونکہ پولیس فورس میں شامل کچھ اہلکار جرائم پیشہ گروپوں سے ملے ہوئے ہیں اور اکثر وارداتوں میں پولیس اہلکار خود شامل ہوتے ہیں۔یہ جان کر ہمیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے والا محاورہ بھی سچ ثابت ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ جب اندر سے کوئی میر جعفر دشمنوں کے ساتھ نہ ملا ہو کسی گھر کو لوٹنا آسان نہیں ہوتا کہتے ہیں۔
بعض کیسوں میں بینکوں میں ڈکیتی کی جو کامیاب وارداتیں ہوتی ہیں اس میں بھی اندر کے لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے وہ اپنے ہی لوگوں سے ہاتھ کرجاتے ہیں اور پھر ان کے ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ہمارا شہر پشاور بھی ان دنوں چوروں، ڈکیتوں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر ہے۔ آئے روز راہ چلتے لوگوں کو اسلحہ کی نوک پر لوٹنا معمول بن چکا ہے۔ جی ٹی روڈ کے مصروف ترین علاقے میں سرشام ہی رہزنی کی وارداتیں شروع ہوتی ہیں۔دو روز قبل ہی میرے دو رشتہ دار بچوں کو لے کر شام کو ہوا خوری کے لئے فلیٹ سے نکلے اور حاجی کیمپ مین جی ٹی روڈ کے ساتھ فٹ پاتھ پر ٹہل رہے تھے کہ موٹر سائیکل سوار دو رہزنوں نے قریب آکر ان پر پستول تان لیا اور موبائل فون اور نقدی حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے بلاچون و چرا دو قیمتی موبائل اور بٹوے مسلح افراد کے حوالے کئے۔ انہیں توقع تھی کہ جی ٹی روڈ پر گاڑیاں چل رہی تھیں۔ سڑک کنارے بھی لوگ موجود تھے۔
کوئی تو ان کی مدد کو پہنچے گا۔ مگر دیکھنے والوں نے بھی ان کی طرف توجہ دینا تو درکنار، دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ بات سمجھ میں آنیوالی ہے کیونکہ ہر ایک کو اپنی جان عزیز ہے شہر میں سٹریٹ کرائمز کی شرح میں غیر معمولی اضافے کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری بہت بڑھ گئی ہے۔ پیٹ کی ضرورت پوری کرنے کیلئے انسان کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے‘بھیک مانگنا اور چوری کرنا مال بنانے کے آسان طریقے ہیں‘بھیک مانگنے کیلئے بیچاروں والا حلیہ بنانا پڑتا ہے۔جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں‘ اسلئے سرپھرے نوجوان چوری اور رہزنی کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی ناخوشگوار انجام سے بچنے کیلئے وہ چند پولیس اہلکاروں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں تو یہ عجب نہیں۔
ہر بندہ فرار کیلئے ایک پتلی گلی کا کھوج لگاتا ہے اور پھربعض پولیس والے بھی اسی معاشرے کے لوگ ہیں اکثریت کسی صورت ایسی نہیں انہیں بھی اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے کہ ان کیلئے اچھا سا گھر بناکردیں انکے پاس گاڑی ہواور یہ کام مہنگائی کے موجودہ دور میں صرف تنخواہ سے ممکن نہیں۔اکثر لوگوں کو ہم نے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر پولیس والے اپنا کام پوری دیانت داری، ایمانداری اور خلوص نیت سے انجام دیں تو معاشرے سے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ پولیس کا موقف یہ ہے کہ ساٹھ ستر لاکھ کی آبادی کی حفاظت چند ہزار پولیس والے کیسے کرسکتے ہیں‘امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، جاپان، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی جرائم سے خالی نہیں۔
اگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جرائم ہوتے ہیں تو یہ کونسی انہونی بات ہے۔ مغرب اور ہمارے معاشرے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں کی پولیس مجبوریوں سے آزاد ہوتی ہے‘ ہمارے پولیس اہلکاروں کو قدم قدم پر معاشی، معاشرتی اور اخلاقی رکاوٹوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ چارہ گر ہوتے ہوئے بھی بے چارے بن گئے ہیں اور جب چارہ گر خود مجبور ہوجائے تو وہ کسی کی کیاچارہ گری کرے گا؟