یوکرین کے چار متنازعہ علاقوں کے باشندے ماسکو (روس) کیساتھ اپنے باضابطہ الحاق کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ”23 ستمبر سے 27 ستمبر“ حق رائے دہی (ووٹ) استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اقدام ”قیام امن کا ضامن‘ روس یوکرائن مستحکم تعلقات اُور ایک ایسے خوشگوار مستقبل“ کی نوید بن سکتا ہے‘ جس کی صرف یوکرائن ہی کو نہیں بلکہ اُن یورپی اور پاکستان جیسے ممالک کو بھی ضرورت ہے جو اپنی توانائی‘ خوردنی و دیگر ضروریات کیلئے روس و یوکرائن کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں یہ رائے شماری جو کہ پانچ دن تک جاری رہے گی‘ مشرقی علاقوں ’ڈونیٹسک‘ و ’لوہانسک‘ اور جنوب میں ’کھیرسن‘ اور ’زاپورز‘ نامی شہروں میں ہو گی تاہم خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ اِس رائے شماری سے روس یوکرائن تنازعے کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ روس پہلے ہی ’لوہانسک‘ اور ’ڈونیٹسک‘ کو آزاد ریاست سمجھتا ہے‘ جو مل کر ’ڈون باس‘ کے علاقے کو بناتے ہیں جس کا نظم و نسق ماسکو نے 2014ء میں جزوی طور پر سنبھالا تھا۔ یوکرین اور بہت سے ممالک روسی افواج کے زیر قبضہ یوکرین کے تمام حصوں کو غیر قانونی قبضہ سمجھتے ہیں۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ …… روس ’ڈونیٹسک‘ نامی شہر کے تقریباً ساٹھ فیصد حصے پر قابض ہے اور مہینوں کی شدید لڑائی کے دوران سست پیش رفت کے بعد جولائی تک تقریباً تمام ’لوہانسک‘ پر قبضہ کر چکا تھا۔ روس کی یہ کامیابیاں اب خطرے میں ہیں کیونکہ روسی افواج کو ’لوہانسک‘ کے پڑوسی صوبہ ’خارکیف‘ میں شدید فوجی مزاحمت کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے روس یوکرائن تنازعہ کسی صورت حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہا اُور اِس کی بڑی وجہ غیرملکی مفادات ہیں جو روس کو یوکرائن پر سبق سکھانا چاہتے ہیں اور مغربی ممالک کی حمایت سے امریکہ کی کوشش ہے کہ روس کے افرادی و جنگی وسائل یوکرائن کے ساتھ جنگ میں خرچ ہوں اور اِس کی معیشت عالمی اقتصادی پابندیوں کے دباؤ میں آئے۔ دوسری طرف عالمی دباؤ بڑھانے کیساتھ روس کی تنقید و مذمت بھی جاری ہے اور یہ سب کچھ اُن لمحات میں ہو رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس جاری ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرائن کے علاقوں کا روس سے الحاق کیلئے ریفرنڈم کے مطالبے کو ”جمہوریت کا مذاق“ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ عمل ”سامراج اور استعمار کے دور میں واپسی“ جیسا ہوگا۔ دریں اثنا‘ امریکی حکومت کے ترجمان ’وائٹ ہاؤس‘ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے‘ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر ’جیک سلیوان‘ کا کہنا ہے کہ ”واشنگٹن یوکرائن ریفرنڈم کے نتائج کو کبھی بھی جائز تسلیم نہیں کریگا۔“ سلیوان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ”یہ ریفرنڈم خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں اُور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔“ ریشیا ٹوڈے نامی روسی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ”چاروں خطوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے روس سے الحاق کے لئے ریفرنڈم کی حمایت کی ہے۔“ روسی قیادت عالمی ملے جلے ردعمل (حمایت و مخالفت) کے درمیان اپنے وطن کے لئے یقینی اور ایک مستحکم خوشگوار مستقبل چاہتے ہیں۔ وہ ہم اپنے حق خود ارادیت کو پورا کرنے اور علاقائی حیثیت کے معاملے میں انتہائی حساس ہیں اور ہر اُس کوشش کی مخالفت کرنے کے لئے‘ آخری انتہا تک جانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں جو روسی مفادات کیلئے نقصان کا باعث ہو عالمی سطح پر روس کے جس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کسی ملک پر ہونیوالی سب سے بڑی فوج کشی ہے اور روسی صدر ولادیمر پوتن نے مزید فوجیوں کو جمع کرنیکا اعلان کیا ہے۔ یوکرین میں لڑنے کیلئے تین لاکھ ریزرو فوجیوں کو فوری طلب کرتے ہوئے پوتن کا کہنا ہے کہ ”ماسکو بھرپور طاقت اُور اپنے تمام ہتھیاروں کی طاقت سے جواب دے گا۔“ روس کی جانب سے فوجیوں کو طلب کرنے کا اقدام ڈونیٹسک‘ لوہانسک‘ کھیرسن اور زاپوریز نامی شہروں میں روس نواز رہنماؤں کی جانب سے ریفرنڈم کے اعلان کے بعد سامنے آیا جسے روسی صدر مغرب کی جانب سے ”جوہری بلیک میلنگ“ کہتے ہیں۔ روس کی جانب سے مزید فوجی طلب کرنے کی ایک وجہ اِسے شمال مشرقی یوکرائن کے محاذ پر ہونے والی شکست بھی ہے‘ جس کے بعد یوکرائن میں داخل ہونے کے بعد روسی افواج کو ملک کے جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اُور روس کے صدر نے اِس تبدیل ہو رہی صورتحال پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ روسی ٹیلی ویژن پر ولادیمر پوتن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”روس کے پاس بہت سے ہتھیار ہیں اُور روس جواب دے گا۔“ اگرچہ روس دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تنازعات اور مشکلات کو دعوت رہا ہے جیسا کہ اُس کی افغانستان میں مہم جوئی کے موقع پر بھی بڑی تعداد میں فوجیوں کو حرکت میں لایا گیا تھا روس کا نکتہئ نظر یہ ہے کہ مغربی ممالک امریکہ‘ لندن اُور برسلز کے اشارے اُور پشت پناہی کی وجہ سے یوکرین میں امن نہیں چاہتے اُور اُن کی کوشش ہے کہ جنگ طول پکڑے۔ دوسری طرف روس اپنی فوجی مہم جوئی کو اِس احتیاط سے آگے بڑھا رہا ہے تاکہ کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو لیکن روس تنہا نہیں بلکہ اِسے چین کی حمایت حاصل ہے۔ روسی صدر نے جب ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے مزید فوجی طلب کئے تو اِس پر چین کی جانب سے فوری ردعمل میں جنگ بندی پر زور دیا گیا‘ چین کے ترجمان وانگ وین بِن نے ”گلوبل ٹائمز“ میں شائع ایک مضمون میں کہا کہ ”بیجنگ مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا حل اور جنگ بندی چاہتا ہے“ چین کے بقول ”ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے اور اِس دفاع کیلئے معقول انتظامات بھی کئے جائیں روس کو یوکرائن سے جو سیکورٹی خدشات لاحق ہیں اُنہیں حل کرنے کیلئے سازگار کوششیں کی جانی چاہئیں اور چین روس و یوکرائن کے درمیان اختلافات دور کرنے کیلئے بات چیت و مشاورت چاہتا ہے۔