ان دنوں اسوج کا مہینہ سارے میں چھایا ہوا ہے وسط ستمبر سے شروع ہونے والا یہ مہینہ اکتوبر کے وسط تک ملی جلی کیفیات کا حامل ہو تا ہے بارش ہو گئی تو کچھ دن خنکی قلب و جاں میں گدگدی کرنے لگتی ہے اور اگر بارش روٹھ جائے تو ایک بہت ہی تنگ کرنے والے حبس کی گھٹن میں سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے، دھوپ بھی جانتی ہے کہ اسوج کے بعد اسے دیر تک اپنا جوبن دکھانے کا موقع نہیں ملے گا، اس لئے خوب خوب خبر لیتی ہے بس اسوج میں اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ راتیں ٹھنڈی ہو نا شروع ہو جاتی ہیں اور خصوصا َ راتوں کا آخری پہر تو اوائل نومبر کی یاد دلانے لگتا ہے، ویسے بھی راتیں جلدی شروع ہو کر دیر سے ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں دن کا دورانیہ بھی سمٹتا جاتا ہے، اب کے پانی نے جہاں بہت سے دیہاتوں اور قصبوں کو بے چراغ کر دیا ہے وہاں فصلوں کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے اسی موسم میں سنہری بالیوں والی اجناس پر بہار آتی ہے گندم اور باجرہ کی فصلوں کی ایک زمانے میں رکھوالی کا بھی یہی موسم تھا،اسی سے کٹھی مٹھی محبتوں کی نرم و نازک حکایتیں شکایتیں بھی خوبصورت مدھر مدھر گیتوں کی شکل میں سنائی دیتی تھیں، ”تیرے باجرے دی راکھی،کیسے میں کر پاؤں گی،ساجن میں گھبراؤں گی راجن میں گھبراؤں گی۔
خیر یہ تو اس پنجابی فوک کا اردو ورژن ہے جسے پی ٹی وی کے لئے فلمسٹار انجمن نے مزے لے لے کے گایا اور پر فارم کیا ہے، جب کہ پنجابی میں نورجہان سمیت بہت سی فنکاروں نے گایا ہے،”تیرے باجرے دی راکھی ماہیا میں نہ بیندی رے او اڑیا میں نہ بیندی ری او اڑیا باجرے دی راکھی“ یہ رکھوالی پنچھیوں اور آوارہ جانوروں کو فصلوں سے دور رکھنے کے لئے کی جاتی تھی اس کے لئے فصلوں میں ”بجوکا“ بھی کھڑا کیا جاتا ہے یہ گھاس پھونس سے بنا ہوا انسانی ڈھانچہ سا ہو تا ہے جسے ٹوپی بھی پہنائی جاتی ہے دور سے ایسا لگتا ہے جیسے کھیتوں میں کوئی انسان کھڑا ہے جس کے ڈر کی وجہ سے جانور اور پنچھی فصلوں کے قریب نہیں آتے، اسوج کا مہینہ بھلے سے مینہ برسائے یا حبس سے سانس چھوٹے چھوٹے کردے میں جب بھی تنہا ہو تا ہوں یا اداسی کی دھند میرے گرد گہری ہونے لگتی ہے میں آنکھیں بند کر سکھ کی تلاش میں اپنے گاؤں میں گزارے ہو ئے دنوں کی یادوں کو پاس بلا لیتا ہوں اسوج کا مہینہ فصلوں کے پکنے کا مہینہ ہے اور اس موسم میں بھی بجوکا ہی راکھی کے کام آتا ہے مگر میں بچپن اور لڑکپن میں جب گاؤں کی فصلوں میں ان بجو کوں کو دیکھتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ یہ کسی بھی لمحہ میرے پیچھے بھاگ پڑیں گے۔
اس زمانے میں سب کھیت کھلیان ہمارے گھروں سے ایک دو منٹ کی دوری پر ہوتے تھے اور ہم سکول سے چھٹی والے دن وہاں کی سیر کو نکل جاتے یا جن خالی میدانوں میں کھیلتے ان میدانوں کے چارو طرف کھیت ہوتے،یا پھر شام کو ٹہلنے کے لئے چلے جاتے پہلے پہلے میں تو والد مرحوم(نوراللہ مرقدہ) کے ساتھ جایا کرتا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے شام کی واک کے لئے جایا کرتے تھے، میں نے اپنی ان لمحوں کی یاداشتیں ’عدنان زیب‘ کی کتاب کے دیباچے میں بھی تفصیل سے لکھی بھی ہیں، ”جو تین حیرانیاں میرے ساتھ ہی جواں ہو کر بڑھاپے کی دہلیز تک آ پہنچی ہیں ان میں سے ایک کا تعلق صرف ایک لنگوٹ کا تکلف کرنے والے آبنوسی رنگت والے بنگالی بابا سے ہے جو لال انگارہ آنکھوں کے ساتھ صرف ایک چھوٹا سا ڈول ہاتھ میں لئے اکوڑہ خٹک کے بازاروں میں گھومتا تھا وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتا تھا۔ کسی نے کچھ دینا چاہا بھی تو ہاتھ جھٹک دیتا یا پھر کسی خوش نصیب سے چند سکے لے لیتا جو جا کر (غالباً) مختار چائے والے کو دے دیتا۔ اس کی دکان اجمل خٹک اور میرے ننھیال کے گھروں کو جانے والے راستے کے نکڑ پر تھی۔میں نے (شاید کسی نے بھی) اسے بولتے نہیں سنا تھا مگر اکوڑہ کے باسی اسے احترام کی نظر سے دیکھتے لیکن اس کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سننے کو ملتیں۔ا س کے بعد مجھے بنگالی بابا سے خوف آتا مگر وہ تو اپنی دھن میں یہاں وہاں گھومتا رہتا اور پھر اچانک غائب ہو گیا۔دوسری حیرانی کا تعلق اکوڑہ خٹک کے ”بادشاہی راستے“ کے پہلے موڑ پر واقع ایک بوڑھے درخت کا ہے۔
ہماری ایک رشتہ دار خاتون پر غشی کے دورے پڑتے۔ بہت علاج کروایا مگر زیادہ فرق نہ آیا تو دم درود کا سلسلہ شروع ہو گیا پھر ایک عامل نے بتایا کہ یہ جنات کی کارستانی ہے، پورا قصہ تو معلوم نہیں کہ تب میں بہت چھوٹا تھا مگر کتنی ہی جمعراتیں شام کے وقت میں اپنے کزن کے ساتھ اس درخت کے نیچے ذرا سے گڑھا کھود کر کھیر کی ایک رکابی رکھ کر آتا اور جمعہ کی صبح ہم جاتے گھڑا کھود کر رکابی نکالتے اور رکابی خالی ہوتی۔ یہ سب کیا تھا؟ جتنا سوچتا ہوں الجھتا جاتا ہوں۔ میری سمجھ میں نہ آنے والی تیسری حیرانی ٹڈی سے جڑی ہوئی ہے۔ اکوڑہ خٹک کے تین وضع دار اور قابل احترام اساتذہ کرام عصر کی نماز پڑھ کر اسی بادشاہی راستے سے ہو کر اب جہاں باغبانپورہ سکول ہے اسی ٹیلے پر چڑھ کر کھیتوں میں شام کی سیر کرنے جاتے تھے۔ کبھی کبھی میں بھی ان کے ساتھ ہو لیتا۔ یہ تین مہربان چہرے نور حسین استاد، بادام گل استاد اور میرے والد بزرگوار آغہ جی سید دلاور شاہ تھے۔ میرے ساتھ نور حسین استاد کے برخوردار امداد حسین اور بادام گل استاد مرحوم کے برخواردار ہارون الرشید بھی ہوتے کہ یہ دونوں میرے کلاس فیلوز تھے۔
جب ہم کھیتوں کے قریب پہنچتے تو وہاں جھاڑیوں میں بہت سی ”ٹڈیاں“ ہوتیں، سبز رنگ اور گہرے زرد رنگ کی ٹڈی کی بڑی بڑی کانٹے دار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ یہ وہی ٹڈیاں ہیں جو جھنڈ یا دَل کی صورت میں کسی کھیت پر ہلہ بول دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے پورا کھیت چٹ کر جاتی ہیں مگر اکوڑہ میں اسے مکڑی کہا جاتا ہے۔ ہم انہیں انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ کر جھاڑیوں سے زمین پر رکھتے ان دو انگلیوں میں بڑے مزے کی گدگدی ہوتی جو وہ خود کو چھڑانے کے لئے خاردار ٹانگوں پر زور کرتیں مگر پھر بے بس ہو جاتیں۔ ہم انہیں زمین پررکھتے ہی پوچھتے کہ ”مکے مدینے کا راستہ کون سا ہے؟“ تو بے اختیار قبلے (مغرب) کی طرف رخ پھر لیتیں اور پھر اڑ جاتیں۔ یہ حیرانی اور معمہ بھی آج تک میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ٹڈی یا مکڑی ایسا کیوں کرتی ہے؟“ بہر حال اس حیرانی کا تعلق بھی اسی مہینے سے جڑا ہواہے جس کے بعد جاڑے کا سندیسہ دیتا ہوا کاتک کا رومان بھرا مہینہ ہو گا اور جس کی چاندنی راتیں بہت دلفریب ہوا کرتی ہیں یار لوگوں کو اب ا ن بھید بھری راتوں کا انتظار ہے، جن کے بارے میں ابن انشا نے بھی کہا ہوا ہے۔
کون سا چاند ہے کس رت کی ہیں راتیں لوگو
دھند اڑنے لگی بننے لگی کیا کیا چہرے
دوستو جی کا عجب حال ہے، لینا بڑھنا
چاندنی رات ہے کاتک کا مہینہ ہو گا