وزیر اعلیٰ نے صوبے میں منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ منشیات کے استعمال سے نئی نسل تباہ ہورہی ہے۔ انہوں نے محکمہ قانون کو منشیات کے کاروبار، ترسیل اور استعمال کی روک تھام کے لئے نیا مسودہ قانون تیار کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ سزاؤں میں اضافہ کئے بغیر معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ آئس اور دیگر منشیات پریشان حال لوگ وقتی طور پر ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور پھر اس لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ آئس اور شیشے کے استعمال سے ذہن تیز ہوتا ہے۔ نیند کم آتی ہے اور طلبا و طالبات کو پڑھائی کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جب طلبا اس افواہ پر کان دھرنے لگے تو منشیات فروشوں نے ہاسٹلوں میں منشیات کی سپلائی شروع کردی۔ نشے کی لت میں گرفتار ہوکر کئی طالب علم جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شہر میں سڑک کنار ے اور پلوں کے نیچے کھلے عام منشیات استعمال کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ملک میں منشیات کی تیاری، کاروبار، ترسیل اور استعمال کے خلاف قوانین موجود ہیں ان میں سزائیں بھی مقرر ہیں مگر معاشرے سے یہ لعنت ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سالوں میں منشیات فروشوں کے خلاف کاروائیوں کے دوران 987ملزمان کو گرفتار کرلیاگیا۔ساڑھے سات سو کلو چرس، آٹھ سو کلو سے زیادہ ہیروئن، پانچ سو کلو افیون، ڈھائی سو کلو آئس اور پچیس ہزار دو سو لیٹر سے زیادہ شراب برآمد کرلی گئی۔
دوسری طرف پولیس کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران پندرہ سو افراد کے خلاف منشیات کے کیس درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ محکمہ سماجی بہبود کے تعاون سے ایک ہزار تین سو منشیات کے عادی افراد کا علاج کرکے انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ادارے اتنی سختی کر رہے ہیں تو منشیات کا کاروبار کم ہوتا نظر آنا چاہئے اس کے برعکس منشیات بیچنے اور خریدنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی کیوں ہورہا ہے۔۔ منشیات خریدنے کے لئے نشے کے عادی افراد چوری اور رہزنی کی وارداتیں بھی کرتے ہیں۔
پشاور کے اووہیڈ پلوں کے جنگلے توڑ کر فروخت کئے گئے۔بی آر ٹی روٹس کے گرد جنگلے بھی توڑنے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔جب ایک خرابی کودانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کیاجاتا ہے تو اس سے کئی دیگر خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔صوبائی حکومت کی طرف سے منشیات کے پھیلا ؤکا نوٹس لینا خوش آئند ہے کیونکہ اس آگ میں ہر خاندان کے جلنے کے خطرات ہیں۔قوم کے مستقبل کے معماروں کو اس آگ سے بچانا ہے تو منشیات کے تدارک کے لئے موثر قانون سازی کرنا ہوگی اور قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد بھی یقینی بنانا ہوگا۔