پشاور کے مختصر دورے پر کراچی سے تشریف لائے ’مہمان خاص‘ معروف عالم دین ’علامہ سیّد شہنشاہ حسین نقوی مدظلہ العالی‘ نے شہراور صدر کی امام بارگاہوں میں بائیس اور تیئس ستمبر چار مجالس عزأ سے خطاب کیا۔ انہوں نے پشاور میں قیام کے دوران شہدائے مسجد کوچہ رسالدار اُور مجروحین کے خانوادوں سے ملاقاتیں کیں اُور ایک نومود کے کان میں آذان دینے سے لیکر حالات و واقعات کے بیان اُور درپیش حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کرنے میں اُن کی بے تھکان دلچسپی اُور لگن مثالی رہی۔ ”امامیہ کونسل برائے اتحاد بین المسلمین“ کے نمائندہ وفد نے بھی علامہ شہنشاہ سے طویل ملاقات کی جس میں کئی اہم امور پر تبادلہئ خیال ہوا۔
یہ ملاقات مشفق و مخلص زوار زیدی کی رہائشگاہ پر ہوئی جہاں علامہ شہنشاہ قیام پذیر رہے۔ علامہ شہنشاہ ”القائم ٹرسٹ ویلفیئر آرگنائزیشن پاکستان“ نامی غیرسرکاری تنظیم (فلاحی ادارے) کے سربراہ ہیں‘ جو کراچی کے علاوہ ملک کے 22 شہروں میں امدادی مراکز کے ذریعے دین مذہب و عقیدے اُور مسلک سے بالاتر ہو کر صرف اُور صرف انسانیت کے جذبے سے ”عوام الناس“ کی خدمت کر رہا ہے ”امامیہ کونسل برائے اتحاد بین المسلمین‘ پشاور“ کی روح رواں سیّد اظہر علی شاہ نے علامہ شہنشاہ کو کونسل کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔
اِس موقع پر کونسل کے دیگر عہدیدار سیّد ابرار جعفری‘ مولانا حسین الحسینی‘ پروفیسر ملازم حسین اور (میزبان) زوار زیدی بھی موجود تھے۔ علامہ شہنشاہ نے حالیہ سیلاب سے خیبرپختونخوا کے متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں کو توسیع دینے کے لئے نہ صرف پشاور میں ’القائم ٹرسٹ‘ کی شاخ (شعبہ) قائم کرنے کا اعلان کیا بلکہ اُنہوں نے سیلاب زدگان کی غیرمشروط اُور ہر قسم کی امداد دینے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ علامہ شہنشاہ نے امامیہ کونسل کی جانب سے اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لئے بعض اہم اقدامات کی تائید کی اور کونسل کے مشن کو جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ خیبرپختونخوا میں ’القائم ٹرسٹ‘ کے ذریعے سیلاب زدگان کی بنا مسلک و مذہب مدد اُن جاری امدادی کوششوں کا حصہ ہوگی جو ’القائم ٹرسٹ‘ پہلے ہی سے کر رہا ہے۔
علامہ سیّد شہنشاہ حسین نقوی (پیدائش 1974ء) کا شمار پاکستان میں اہل تشیع کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے جو صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی و فلاحی محاذ پر بھی ڈٹ کر دین اُور ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ علامہ شہنشاہ کا تعلق مذہبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے آباؤاجداد بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو اُنہوں نے کراچی اور خیرپور میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ خانوادہ اپنے ساتھ جو عزاداری لایا وہ آج زیادہ منظم اُور بڑے پیمانے پر خیرپور (سندھ) میں جاری ہے۔ گھر کے آنگن سے خواتین اُور مردانہ مجالس کے سلسلے دیکھے اُور سات آٹھ سال کی عمر سے مجالس عزأ سے خطاب کر رہے ہیں۔ آپ کے پہلے اُستاد (بڑے بھائی) مولانا سید عون نقوی مرحوم تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد پندرہ برس ’حوزہ علمیہ قم (ایران)‘ میں زیرتعلیم رہے۔ ”قم“ کے لغوی معنی پہاڑوں کی ملکہ یا بادشاہ کے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران کے اِس شہر کی 3 مناسبتوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
قم میں امام علی ابن موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ سیّدہ فاطمہ بنت موسیٰ رضا رضی اللہ عنہا کا مزار پر انوار ہے۔ ”قم“ میں بنے ہوئے ریشمی و اونی قالین بہت مشہور ہے اور قم ہی میں اہل تشیع کا مرکزی مدرسہ 1922ء میں آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری نے قائم کیا تھا۔ اہل تشیع کے ہاں مدرسے کو ’حوزہ علمیہ‘ کہا جاتا ہے۔ علامہ شہنشاہ ”قم“ سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی مجالس سے خطاب کرتے رہے تاہم فارغ التحصیل ہونے اور پاکستان واپسی کے بعد اُن کی حیثیت اہل تشیع کے قومی و مرکزی رہنما کی ہے‘ جن سے ملاقات اور جن سے عصری و دینی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
علامہ شہنشاہ اپنے مخصوص فن ِخطابت اور لطیف انداز میں مشکل نکات کے بارے مدلل و باادب گفتگو اور دلائل دینے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہی۔ آپ کی ایک ایسی انفرادیت بھی ہے جو آپ کے علاوہ شاید کسی دوسرے عالم دین کو حاصل نہیں اور وہ یہ ہے کہ آپ خطاب کرنے سے اپنی تقریر کے موضوع سے متعلق نکات کو لکھتے ہیں اور اِس طرح ایک خاص ترتیب کے مطابق مجلس پڑھتے ہیں۔ بیان میں دو چار باتیں اضافی ہو بھی جائیں لیکن تقاریر اپنے محور و مرکز سے بندھی رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہاں موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور آپ کی تقاریر میں موضوع سے منطبق و متصل رہنے کی خصوصیت عوام الناس اور علمی ادبی حلقوں میں بہت شہرت رکھتی ہے۔