انگریزی زبان کی کہاوت ہے کہ بدقسمتی کبھی اکیلی نہیں آتی۔اپنے ساتھ بہت سے حادثات و سانحات بھی لاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ پہلے کورونا کی وبا نے کمر توڑ دی۔ بین الاقوامی تجارتی راستے مسدود کردیئے گئے۔ کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی، لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا۔اس صورتحال میں صرف ترقی پذیر ممالک کو نہیں بلکہ ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں تاریخ کی بدترین کساد بازاری اور مہنگائی سے گزرنا پڑا۔ تاہم انہوں نے معاشی استحکام کے ذریعے ان حالات کا مقابلہ کیا اور اب وہاں پر صورتحال قابو میں ہے۔ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک میں حالات مختلف ہیں، وہاں اب بھی بے روزگاری اور کساد بازاری کا دور دورہ ہے۔ اس دوران روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مہنگائی کی نئی لہر آگئی۔ جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا۔
ابھی لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رو رہے تھے کہ ملک میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی۔ تین کروڑ سے زیادہ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ابھی تک سندھ اور بلوچستان کی بیشتر آبادی میں سیلابی پانی موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان کا دورہ کیاانہوں نے عالمی برادری سے پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے امداد دینے کی اپیل کی ہے۔ ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ انجلینا جولی بھی سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے پاکستان پہنچ چکی ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سیلاب متاثرین کے لئے امداد جمع کرنے کے لئے تین بار ٹیلی تھون کیا جس میں لوگوں نے گیارہ ارب روپے دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ آدھی رقم مل بھی چکی ہے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی طرف سے ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی گئی۔
امریکہ میں مقیم چترال کے ایک مخیر شخص نے ڈیڑھ کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے نقد امداد اور سامان جمع کئے جارہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے عالمی برادری سے امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ہمارے متمول لوگ اگر اپنے غیر ملکی اکاونٹس میں موجود ڈالر اکاؤنٹس سے زکواۃ کے پیسے ہی دے دیں تو تمام بے گھر متاثرین کو چھت کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کا دولت مند طبقہ اگر اپنی بساط کے مطابق متاثرین کی مدد کرے تو ہمیں عالمی برداری سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ حکومت اور اقوام متحدہ کی طرف سے اپیلوں کا کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے اس سے قطع نظر اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ہر کام میں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا ہوگا۔لاکھوں کی تنخواہیں اور کروڑوں ماہانہ کمانے والے اپنی دولت کا ایک فیصد بھی فلاحی کاموں کے لئے وقف کریں تو ہم امداد مانگنے کے بجائے امداد دینے والے بن سکتے ہیں۔اس تمام تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر ہم اپنی مدد آپ کے تحت حالات کا مقابلہ کرنے کی پالیسی اپنائیں تو اس پر عمل کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔