دلچسپ و عجیب تحقیق

بظاہر معمولی دکھائی دینے والی ’بیت الخلأ‘ کی سہولت سے متعلق ایک دلچسپ و عجیب عالمی تحقیق سامنے آئی ہے۔ ہر سال ”19 نومبر“ کے روز عالمی سطح پر ”’بیت الخلأ کا دن“ منایا جاتا ہے اور پاکستان میں 94 فیصد لوگوں کو ’بیت الخلأ‘ کی سہولت میسر ہے جبکہ صرف 6 فیصد ایسی آبادی ہے جسے باقاعدہ ’بیت الخلأ‘ میسر نہیں اور ’بیت الخلأ‘ سے محروم علاقوں میں صرف ایک فیصد شہری علاقوں میں ہیں۔جبکہ دوسری طرف سال 2019ء میں بھارت کے 36 صوبوں (28 سٹیٹس اور 8 یونین ٹریٹریز) کے صرف 25.21 فیصد حصوں میں عوام کو ’بیت الخلأ (toilet)‘ کی سہولت میسر ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ 1 ارب38 کروڑ آبادی میں ایک چوتھائی سے کچھ زیادہ لوگ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ’بیت الخلأ‘ کا استعمال کرتے ہیں۔

 یہ اعداد و شمار ایک دلچسپ و عجیب تحقیق میں سامنے آئے ہیں جو ایک برطانوی بلاگر ’گراہم آسکی‘ نے تن تنہا مکمل کی ہے اور اِس تحقیق میں اُنہوں نے 91 (بیشتر ترقی پذیر) ممالک کا دورہ کیا تاکہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ ”خراب“ بیت الخلأ کی کھوج لگا سکیں اور نتیجہ ’تاجکستان‘ کا سامنے ہے جہاں کے ایک علاقے میں موجود ’بیت الخلأ‘ کو ”دنیا کا سب سے خراب ٹوائلٹ“ قرار دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ تاجکستان وسط ایشیائی ملک ہے جس کی سرحدیں چین‘ افغانستان‘ کرغزستان اور اُزبکستان سے ملتی ہیں اور اِس کی کل آبادی قریب دس لاکھ ہے۔’بیت الخلأ‘ کی تلاش و تحقیق کا انوکھا تصور اپنے اندر بہت سے حقائق سموئے ہوئے ہے اور اِس سے کسی ملک کے فیصلہ سازوں کی ترجیحات اور وہاں ترقی کے عمل و رفتار اور معنویت کا انداز لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ملک دیدہ زیب مقامات اور باسہولت و خوبصورت شاہراؤں کا مجموعہ ہے لیکن وہاں اگر عام آدمی (ہم عوام) کو ’بیت الخلأ‘ جیسی بنیادی سہولت تک میسر نہیں تو ترقی کی ساری روداد بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔

 اِس دلچسپ و عجیب تحقیق کا دوسرا نمایاں پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں ایڈوینچر کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ لوگ نت نئے کھانا کھانے یا غیر ملکی ثقافت کا تجربہ کرنے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں لیکن برطانیہ (انگلینڈ) سے تعلق رکھنے والے ایک کھوجی اور تجزیہ کار (بلاگر) گراہم آسکی اُن تمام لوگوں سے کچھ مختلف کیا ہے۔ امریکی ویب سائٹ ’اے ٹی آئی‘ پر جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق ’گراہم آسکی‘ نے دنیا کے سب سے خراب ٹوائلٹ کی تلاش میں 75ہزار میل سفر طے کیا۔ گراہم آسکی نے ”ٹوئلٹ اینڈ یورینل ریسٹوریشن اینڈ ڈیزائن سوسائٹی“ کے لئے ایک دستاویزی مطالعہ پیش کیا ہے۔

 انہوں نے ”انسائڈ اَدر پلیس“ کے عنوان سے اپنے بلاگ میں کہا کہ دنیا کے بدترین ٹوائلٹ کو ڈھونڈنے کا خیال اُنہیں تب آیا جب اُنہیں مراکش کے ایک ’بیت الخلأ‘ جانے کا اتفاق ہوا جو انتہائی خراب حالت میں تھا اور وہیں اُن کے ذہن میں آیا کہ دنیا کا خراب ترین ’بیت الخلأ‘ تلاش کیا جانا چاہئے۔ اس رپورٹ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ بہت سے ممالک ایسے نمائشی اقدامات تو کرتے ہیں جن سے ان کی ترقی اور خوشحالی کی ایک ظاہری تصویر سامنے آئے تاہم دنیا میں معاشی ترقی کے مراکز اور بڑی منڈی کے باوجود وہاں کے عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا عمل نظر انداز ہے‘یہاں یہ امر قابل اطمینان ہے کہ پاکستان کو کئی حوالوں سے بنیادی ضروریات کی فراہمی کے سلسلے میں مثبت اقدامات کا حامل قرار دیا جارہا ہے اور معاشی مشکلات کے باوجود یہاں پر عوام کا طرز زندگی مقابلے میں موجود بہت سے ممالک سے بہتر ہے جو خوش کن حقیقت ہے۔