چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے مصالحتی اور ثالثی کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنازعات کے حل کیلئے متبادل نظام"Alternate Dispute Resolution"سے متعلق قانون سازی ہونی چاہئے۔انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس سے اپنے خطاب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لئے خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا، پولیس کے تفتیشی اور پراسیکوشن نظام کو بہتر بنانا اور اداروں کے درمیان قریبی روابط کا قیام ناگزیر ہے۔الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کا نظام ہمارے ہاں پولیس کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے لیکن عوام میں اس حوالے سے آگاہی کے فقدان کی وجہ سے لوگ اے ڈی آر سے رجوع کرنے کے بجائے ایف آئی آر درج کرکے مقدمہ بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔اے ڈی آر کا نظام کیا ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ مصالحتی اور ثالثی کا نظام سب سے پہلے اے کے ڈی این نے متعارف کرایا تھا۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے تحت مصالحت و ثالثیCouciliation and Arbitration Councilکا نظام پوری دنیا میں رائج ہے۔ ہر شہر میں CABکے دفاتر موجود ہیں۔ اس کے کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے تنازعے کے ایک فریق کو بلاکر اس کا موقف سنا جاتا ہے اور اسے باقاعدہ تحریری طور پرریکارڈکیاجاتا ہے۔ پھر دوسرے فریق کے ساتھ نشست کرکے اس کا موقف لیاجاتا ہے۔دونوں فریقوں سے ممکنہ حل بھی معلوم کیاجاتا ہے۔ پھر بورڈ کے ممبران دونوں فریقوں کو ساتھ بٹھاکر ان کی طرف سے پیش کردہ ممکنہ حل پر بحث کرتے ہیں دونوں فریقوں کو کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت کسی متفقہ حل پر پہنچنے میں مدد کی جاتی ہے۔ جب دونوں فریق کسی حل پر متفق ہوتے ہیں تو ان سے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا عہد لیاجاتا ہے۔اس طرح ایک روپیہ خرچ کئے بغیر اراضی کی تقسیم، وراثت‘بچوں کی کفالت،تجارت،میاں بیوی کے درمیان تنازعات سمیت ہر قسم کے مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں اس میں تھانہ کچہریوں کے چکر کاٹنے، وکیل کرنے، مقدمات کی پیشیاں بھگتانے سمیت تمام مالی نقصانات اور ذہنی پریشانیوں سے بچا جاسکتا ہے۔مصالحتی اور ثالتی کے اس نظام کے ذریعے پاکستان میں سالانہ ہزاروں مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں اسی نظام سے متاثر ہوکر حکومت نے تھانوں کی سطح پر الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کا نظام متعارف کرایاتھا۔موجودہ دور میں اس نظام کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر اعلی عدالت کے ججوں نے زور دیا ہے۔سول اور سیشن کورٹ سے لے کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں سینکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمات زیرالتوا ہیں اگر مزید کیسز نہ بھی آئیں اور ہر عدالت روزانہ دس مقدمات کے فیصلے سنادے تب بھی موجودہ زیرالتوا مقدمات کے فیصلے ہونے میں پندرہ سے بیس سال لگیں گے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے مصالحتی اور ثالثی کے نظام کو ہر شہری کیلئے قابل رسائی بنانا موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔