بہترین دوست 

جانوروں میں انسان کا سب سے اچھا دوست کتا  ہے۔ جو ہزاروں سال پہلے بھیڑیے تھے اور تاریخ میں ایسے شواہد موجود ہیں کہ انسانوں نے دانستہ یا غیردانستہ (غلطی سے) کتوں کو گوشت کھلا کر پال لیا۔ تاریخی سچائی کچھ بھی ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کتے طویل عرصے سے انسانوں کے بہترین دوست رہے ہیں۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر بطور پالتو جانور گھروں میں رکھا جاتا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ حفاظت ہوتی ہے۔انسانوں کی طرح کتوں کی بھی اپنی مخصوص خصوصیات اور خصلتیں ہیں۔ مثال کے طور پر‘ کچھ بہترین ساتھی ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے مالک کی حفاظت میں ثانی نہیں رکھتے۔ پاکستان میں کل 9 اقسام کے کتے زیادہ جانے پہچانے (معروف) ہیں اور انہیں پالتو جانور کے طور پر بھی گھروں میں رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ مقامی آب و ہوا سے موافقت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں غیرملکی کتوں کی یہ اقسام خاص طبقے کے لوگوں (رہن سہن) کی پہچان ہوتی ہے جبکہ کتوں کو تربیت دے کر اُن سے کام کاج کے علاوہ گھر کی حفاظت یا تفریح جیسے مقاصد بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے زیادہ مقبول ’جرمن شیفیرڈ‘ نامی کتے کا آبائی ملک ’جرمنی‘ سے ہے اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 9 سے 13 سال ہوتی ہے جبکہ اِس کے ایک پلے (بچے) کی قیمت ساٹھ سے نوے ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ جرمن شیفیرڈ کی منہ مانگی قیمت بھی طلب کی جاتی ہے کیونکہ یہ انتہائی وفادار اور چوکیداری کے لئے مستعد و ہمہ وقت تیار رہنے والا کتا ہے۔ دوسری قسم ’پٹ بُل‘ نامی کتا ہے جس کا آبائی ملک برطانیہ اور اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 8 سے 16 سال جبکہ قیمت 30 ہزار سے 40 ہزار روپے ہے‘ سائیبرین ہسکی نامی کتے کا آبائی ملک ’سائبریا‘ ہے۔ اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 12 سے 14 سال اور قیمت 40 ہزار سے 60 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ ’ڈوبرمین پنچشر‘ نامی کتے کا آبائی ملک جرمنی ہے۔ اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 10 سے 13 سال جبکہ قیمت 30 ہزار سے 50 ہزار روپے ہوتی ہے۔ ’پوڈل‘ نامی کتے کا آبائی ملک ’فرانس‘ اور ’جرمنی‘ سے ہے۔ اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 12 سے 15 سال جبکہ قیمت 15 ہزار سے 30 ہزار روپے ہوتی ہے۔ ’روٹویلیئر‘ نامی کتے کا آبائی تعلق بھی ’جرمنی‘ سے ہے اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 8 سے 10 سال جبکہ قیمت 30 ہزار سے 50 ہزار روپے ہوتی ہے۔ اِس نسل کے تربیت یافتہ کتے انتہائی قیمتی و کارآمد ہوتے ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور منشیات کی کھوج کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ’لیبرڈور ریٹرئیور‘ نامی کتے کا آبائی ملک ’کینیڈا‘ ہے اور اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 10 سے 12 سال جبکہ قیمت 25 ہزار سے 40 ہزار روپے ہوتی ہے۔ ’گولڈن ریٹرئیور‘ نامی کتے کا آبائی ملک ’سکاٹ لینڈ برطانیہ‘ اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 10سے 12 سال اور قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ ’بُل ڈاگ‘ نامی کتے کا آبائی ملک ’برطانیہ‘اور اِس کی زیادہ سے زیادہ عمر 8 سے 10 سال جبکہ قیمت 35 ہزار سے 50 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ اِن خاص قسم کے کتوں کی مقامی بریڈز کے مقابلے غیرمقامی بریڈز (نسل) کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔پالتو کتوں کی قیمتیں اور اُنہیں پالنے کے شوق رکھنے والے اِس معاملے میں خاصے حساس ہوتے ہیں اور اِس شوق کی وجہ سے وہ ایک طرح کے سماجی تعلق میں بھی بندھے ہوتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں پالتو کتوں کی آبادی 2 لاکھ ہے جن میں سے 75 ہزار کے لگ بھگ کا تعلق کتوں کی اوّل الذکر خاص نسلوں (اقسام) سے ہے۔ پالتو کے علاوہ کتوں کی دیگر اقسام جیسا کہ گلی کوچوں میں پھرنے والے آوارہ کتے ملک کے ہر شہر‘ قصبے اور دیہات کا مسئلہ ہیں جن سے نمٹنے کے لئے مقامی سطح پر یہی اقدام کیا جاتا ہے کہ اُنہیں زہر دے کر ہلاک کر دیا جائے لیکن آوارہ کتوں کو تکلیف دہ موت دینے سے زیادہ سوچ بچار نہیں کی جاتی اور یہی وہ نکتہ ہے کہ کتے ہوں یا کوئی بھی دوسرا جانور اُسے مارنا غیر اخلاقی رویہ اور جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے‘ جسے پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ’کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)‘ نے پاکستان میں ”آوارہ کتوں“ کی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے خصوصی مرکز قائم کیا ہے اور یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مرکز ہے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِس پیشرفت کے دیکھا دیکھی چاروں صوبوں اور بالخصوص اضلاع کی سطح پر حسب ضرورت ایسے مراکز بنائے جائیں گے۔
اسلام آباد کے علاقے ’ترلائی‘ میں پارک روڈ پر قائم کئے گئے مذکورہ ”ڈاگ سنٹر“ میں بیک وقت پانچ سو سے زائد کتے رکھنے کی گنجائش ہے۔ مرکز میں کتوں کے کھیل کود‘ آرام‘ علاج گاہ (سرجیکل یونٹ)‘ ویکسی نیشن سنٹر اور تجزیہ گاہ (لیبارٹری) بھی بنائی گئی ہے اور اِن الگ الگ سہولیات سے عام شہری اپنے پالتو کتوں کے لئے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ چیئرمین ’سی ڈی اے‘ ریٹائرڈ کیپٹن عثمان یونس جو کہ چیف کمشنر اسلام آباد بھی ہیں نے ’چوبیس ستمبر‘ کے روز ’ڈاگ سنٹر‘ کا افتتاح کیا‘ جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر اِس اقدام کا دھوم مچی ہوئی ہے اور اندرون و بیرون ملک سے پاکستانی اِس اقدام کو سراہا رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ایک دہائی قبل اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں کی بیویوں نے کتوں کو نہ مارنے کے لئے ایک مہم شروع کی تھی جس میں آوارہ کتوں کی ’نس بندی‘ کر دی جاتی تھی تاکہ اُن کی نسل مزید نہ بڑھے لیکن اُنہیں جان سے مارا نہیں جاتا تھا۔ اِس مہم کے لئے اسلام آباد میں مقیم غیرملکی سفارتکاروں کی بیویوں نے خطیر رقم عطیہ بھی کی تھی جبکہ وہ خود اِس مہم کے دوران آوارہ کتوں کو خوراک فراہم کرتی تھیں اور اُن کا خیال تھا کہ اگر آوارہ کتوں کی نس بندی کردی جائے تو وہ بالآخر ختم ہو جائیں گے۔ اسلام آباد میں ’ہیلپ ویلفیئر آرگنائزیشن‘ نامی ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم (این جی او) بھی آوارہ اور جنگلی جانوروں کو ریسکیو کرتا ہے اِس تنظیم کی شریک بانی فریال نواز نے دسمبر دوہزاراٹھارہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’سی ڈی اے‘ اور میونسپلٹی کا سینی ٹیشن ڈائریکٹوریٹ صحت مند آوارہ کتوں کو گولی مارنے اور انہیں زہر دینے کے ذریعے ہلاک نہ کرے کیونکہ یہ غیر انسانی‘ غیرآئینی اور اسلامی اصولوں کے منافی اقدام ہے۔ عدالت کے سامنے پیش کردہ حقائق میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ہر سال سینی ٹیشن ڈائریکٹوریٹ کے اہلکار اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں سینکڑوں آوارہ کتوں کو مارنے کے لئے شاٹ گن یا زہر کا استعمال کرتے ہیں جو شہریوں کے لئے بھی پریشانی اور خطرے کا باعث ہے۔ مقدمہ دائر کرنے کی درخواست میں ’عالمی ادارہئ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ اُو)‘ کی رپورٹس کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”کتوں کو مارنے سے ریبیز اور دیگر بیماریوں کا خطرہ کم نہیں ہوتا لیکن یہ صحت کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔“ ریبیز کے بارے میں ’ڈبلیو ایچ اُو‘ کے رہنما اصولوں میں کہا گیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ صرف کتوں کو مارنے سے آوارہ کتوں کی آبادی میں کمی یا ریبیز کے پھیلاؤ پر کوئی خاص منفی اثر پڑا ہو بلکہ اس کے بجائے ریبیز پر قابو پانے کے لئے سب سے مؤثر اقدام کے طور پر بڑے پیمانے پر کتوں کی ویکسی نیشن ہونی چاہئے۔ جانوروں اور بالخصوص کتوں کے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے والے مطمئن ہیں کہ ’اسلام آباد‘ میں ملک کا پہلا ’ڈاگ پاپولیشن سنٹر‘ قائم ہو گیا ہے جو اسلام آباد کے مختلف علاقوں بالخصوص دیہی علاقوں سے آوارہ کتوں کے کاٹنے کی بڑھتی ہوئی شکایات کا مستقل و پائیدار حل نکالے گا۔ کتوں کے بارے میں عمومی منفی رائے (غلط فہمیوں) کے ازالے اگرچہ ’ڈاگ پاپولیشن سنٹر‘ میں الگ سے شعبہ نہیں بنایا گیا لیکن اُمید ہے کہ اگلے مرحلے میں ڈاگ سنٹر کی صوبائی شاخوں کے قیام کے علاؤہ اچھی نسل کے کتوں کی اقسام بھی فروخت کے لئے پیش کی جائیں گی جس سے نہ صرف مذکورہ مرکز کے اخراجات پورے ہوں گے بلکہ اِس سے کتوں کو بطور پالتو جانور رکھنے والوں کو ناجائز منافع خوروں سے بھی نجات ملے گی۔ توجہ طلب ہے کہ مذکورہ مرکز اِس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ آوارہ کتوں کو پکڑنے کے عمل (کاروائیوں) کے دوران ’پالتو جانور‘ کو نشانہ نہ بنایا جائے اور صرف شکایت موصول ہونے پر ہی کاروائی کی جائے۔