پہلا منظرنامہ (بیرونی سہارا): امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ’غذائی تحفظ‘ کے لئے مزید ’ایک کروڑ ڈالر‘ دینے کا اعلان اپنی جگہ اہم لیکن جب تک پاکستان میں زراعت کو تحفظ اور اہمیت نہیں دی جائے گی اُس وقت تک بیرونی امداد مسئلے کا وقتی اور جزوی حل ثابت ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان اپنی برآمدات میں اضافے کیلئے زراعت کی بجائے صنعتوں کو ترجیح دیتا ہے اور امریکہ پاکستانی برآمدات وصول کرنے والا سب سے بڑا ’تجارتی شراکت دار‘ ہے‘ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی سنگل کنٹری ایکسپورٹ مارکیٹ ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے سب سے بڑے ذرائع میں سے ایک ہے‘ گزشتہ سال امریکی سرمایہ کاری میں پچاس فیصد اضافہ ہوا جبکہ سال دوہزاراکیس میں پاک امریکہ دوطرفہ تجارت تقریباً نو ارب ڈالر تک جا پہنچی تھی‘ امریکی کمپنیاں اور اِن کے مقامی متعلقہ اداروں کا شمار پاکستان کے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے‘ تقریباً 80 امریکی کمپنیاں ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو براہ راست ملازمت فراہم کرتی ہیں جبکہ دس لاکھ سے زیادہ پاکستانی بالواسطہ طور پر امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ سال دوہزاراکیس میں امریکی کمپنیوں نے پاکستان میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے اقدامات کے تحت ستاون لاکھ ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی تھی‘ دوسرا منظرنامہ (ناقص منصوبہ بندی): حالیہ مون سون بارشوں اور اِس کی وجہ سے آئے سیلاب نے خیبرپختونخوا میں زراعت و سیاحت جبکہ سندھ و بلوچستان میں زیادہ بڑے پیمانے پر مواصلات (شاہراؤں) اور زراعت کو اِس حد تک شدید نقصان پہنچایا ہے کہ سیلاب کا ریلہ سمندر میں گرنے کے باوجود بھی کئی علاقے زیرآب ہیں جس کی وجہ سے آئندہ ربیع سیزن کی فصل متاثر ہوگی اور یہ بات اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ تاریخ کا ایک انتہائی بدترین سیلاب برداشت کرنے کے بعد بھی کئی علاقوں میں ’ربیع سیزن‘ کے لئے درکار پانی دستیاب نہیں اور اندازہ ہے کہ رواں برس ’ربیع سیزن‘ کی کاشت کے لئے پندرہ سے بیس فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا! پانی کی یہ کمی درحقیقت آبپاشی کی ’ناقص منصوبہ بندی‘ کی وجہ سے ہے۔
ذہن نشین رہے کہ آئندہ چند روز (یکم اکتوبر) سے شروع ہونے والے ’ربیع سیزن‘ کے لئے پانی کی متوقع کمی سے خاص طور پر گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور گندم پاکستان کی انتہائی اہم فصل ہے جس کی پیداوار میں کمی کے دو مطلب ہوتے ہیں۔ ایک تو گندم کی قلت پیدا ہوگی جس سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور دوسرا گندم درآمد کرنا پڑے گی جس سے زرمبادلہ پر دباؤ کم کرنے کے مزید قرض لینا پڑے گا اور یہ دونوں محرکات لائق داد نہیں۔پاکستان میں زراعت کے لئے دستیاب پانی کے حوالے سے ’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا)‘ کی ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں ربیع سیزن کے لئے دستیاب پانی کا تخمینہ لگایا گیا جس سے معلوم ہوا ہے کہ ’ربیع سیزن‘ کیلئے پانی کی ضرورت 37 سے 38 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ہے جبکہ دستیاب پانی ساڑھے تیس سے ساڑھے تینتیس ایم اے ایف ہے! قبل ازیں (مئی دوہزاربائیس میں) ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو تجویز دی تھی کہ پانی کی بڑھتی ہوئی مسابقت سے نمٹنے اور موجودہ اور مستقبل میں آلودگی‘ گندے پانی‘ سیلاب‘ خشک سالی اور زمینی انحطاط کے اثرات سے بچنے کے لئے تمام متعلقہ شعبوں میں موثر منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس کی جائے اور اصلاحات متعارف کروائی جائیں لیکن ایشیائی ترقیاتی بینک کی اِس تجویز کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے نئے خانکی بیراج پراجیکٹ کی تکمیل سے متعلق اپنے مطالعے میں کہا تھا کہ ”مربوط انتظام اور ترقی کو فروغ دینے کیلئے مناسب پالیسیاں وضع کی جانی چاہئیں کیونکہ مستقبل کے آبپاشی کے منصوبوں کو بھی کئی شعبوں بالخصوص زراعت میں پانی سے متعلق مسائل کے حل کے ذریعے آگاہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو مزید جامع بنانے کے لئے تعلیم‘ مالیات اور صحت جیسے شعبوں میں تکمیلی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ضرورت کی نشاندہی بھی کی گئی تھی لیکن کئی ماہ پہلے جن شعبوں کی جانب توجہ دلائی گئی تھی‘ اُنہیں نظر انداز کرنے کے باعث غذائی اور زرعی عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ارسا کی تکنیکی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کی بہت کم تفصیلات جاری ہوئیں تاہم اِس حوالے سے جانکاری رکھنے والے ذرائع کے مطابق اجلاس میں جن تفصیلات اور اعدادوشمار کا تبادلہ کیا گیا اُن کے مطابق تربیلا ڈیم اپنے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے زیادہ بھر چکا ہے جبکہ منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے پانی کی سطح تقریباً پچاس فیصد کم ہے۔
تکنیکی کمیٹی اجلاس میں صوبوں‘ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اور میٹ آفس کے نمائندوں بھی شریک تھے۔ اِن تخمینوں کی بنیاد پر کمیٹی نے ربیع سیزن کیلئے پانی کی مجموعی قلت کو پندرہ سے بیس فیصد کے درمیان قرار دیا کمیٹی کا اگلا اجلاس کل (اُنتیس ستمبر کے روز) ہوگا‘ جس میں پانی کی دستیابی کا تخمینہ اور صوبوں کو اس کی تقسیم کو حتمی شکل دی جائے گی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اگلی فصل (ربیع سیزن) کے لئے پانی کی قلت کا خدشہ ہے اور یہ خدشہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سندھ میں زمین کا بڑا حصہ تاحال زیر آب ہے یا زرعی زمین پر گندم کی بوائی نہیں ہو سکتی کیونکہ سیلاب کا پانی کیچڑ یا دیگر شکل و صورت میں موجود ہے اور سیلابی ریلا جن علاقوں سے گزر کر سمندر میں گرا ہے وہاں ضرورت سے زیادہ پانی موجود ہے اور اِس صورتحال کے باعث گندم کی فصل کی بوائی نہیں ہوگی یا کچھ علاقوں میں اِس کی کاشت کا رقبہ اِس سال کم رہے گا تاہم سیلاب سے گندم کی کاشت کو کل کتنا نقصان پہنچا گا اور گندم کی فصل پر اِس کے اثرات کیا ہوں گے‘ اِس بارے میں کسی حتمی رائے تک پہنچنا ابھی قبل از وقت ہے۔