کچھ اپنے معاشرے کے بارے 

دنیا کے دیگر ملکوں میں جن کاموں کو انہونی سمجھا جاتا ہے  ہمارے ہاں وہ روز کا معمول ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو محیرالعقول واقعات کا ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔کھیل، سیاست، معاشرت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں ہم ناقابل یقین کام سرانجام دیتے ہیں۔مثال کے طور پر کرکٹ کی دنیا میں ہم نے حالیہ دنوں میں جو کارکردگی دکھائی ہے اسے دیکھ کر پوری دنیا انگشت بدنداں ہے۔ جہاں یہ جملہ لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ"کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے" تو ہم الرٹ ہوجاتے ہیں۔اگر ہم میں قانون کی پاسداری کرنے کی عادت اندر سے آجائے توتب ہی سارے مسائل حل ہونگے۔ ہم اس وقت تو ٹریفک سگنل پر رک جاتے ہیں جب وہاں کوئی ٹریفک وارڈن ڈیوٹی پر مامور ہو، تاہم جب وہاں پر کوئی نہ ہو تو پھر ٹریفک سگنل کی پابندی کرنا ہمیں گوارا نہیں۔جبکہ دوسرے ممالک میں تو ایسے مناظر اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ رات کے وقت جب روڈ پر محض ایک ہی گاڑی ہے اور وہ بھی ٹریفک سگنل سرخ دیکھ کر رک جاتی ہے۔ حالانکہ اس وقت سڑک خالی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اور گاڑی ہے نہ کوئی ٹریفک وارڈن، پھر بھی قانون تو قانون ہے، اس کی پاسداری کے جذبے کے تحت گاڑی رک جاتی ہے۔

اب ایک اور مسئلے کی طرف آتے ہیں۔پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں یہ الفاظ جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ہمارے ہاں خالص دودھ دستیاب ہے۔ خالص شہد کا واحد مرکز ہے۔خالص آٹا، مصالحہ ملتا ہے بغیر ملاوٹ کا آٹا دستیاب ہے سستی اور معیاری ادویات صرف یہاں سے ملتی ہیں۔دنیا کے دیگر ملکوں میں یہ ساری چیزیں خالص ہی ملتی ہیں مگر ان کی تشہیر نہیں کی جاتی۔چونکہ ہمارے ہاں خالص چیز کا ملنا محال ہے اسلئے خالص کا لفظ لگا کر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔یعنی ہمارے ہاں گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے"خالص" کا لفظ لکھا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں خالص چیز ملنا جوئے شیر لانے کے متردف ہے۔جہاں خالص چیز کا بورڈ لگا ہو ضروری نہیں کہ وہاں بھی خالص چیز ہو۔غریب عوام خالص اور اصلی چیز کی قیمت پر نقلی اور جعلی چیزیں خریدنے پر مجبور ہیں۔اس ملاوٹی اشیائے خورد نوش کے باعث مہلک بیماریوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہاہے اور بسا اوقات جو لوگ اس میں ملوث ہیں خود ان کو بھی اپنا بویا ہوا کاٹنا پڑتا ہے۔اور تو اور ادویات میں بھی اگر جعلی اور نقلی کا معاملہ چل پڑے تو پھر انسانی جان کی کیا قدر رہ جاتی ہے۔

 ایک انسان جان بچانے کیلئے کوئی دوا تلاش کرے اور وہ بھی بڑی قیمت ادا کرکے اور ایسے میں اگر وہ دوا اثر نہ دکھائے اور نتیجہ یہ سامنے آئے کہ یہ تو اصلی نہیں، یہ صورتحال یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ملاوٹ کا خاتمہ جس قدر جلد ہو اور اس کو ایک مشن کے طور پر انجام دیا جائے تو اس قدر بہتر ہے، یہ تو ایک حقیقت ہے کہ عوام کے مسائل کو حل کرنا ہی کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور جو مسئلہ جس قدر بڑا اور گمبھیر ہوگا اس قدر ہی اس کے حل کرنے کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے اور چھوٹا مسئلہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو پھر اسے حل کرنے میں وقت اور سرمایہ دونوں صرف ہوتے ہیں۔ ملاوٹی اشیاء کا مارکیٹ پر حاوی ہونا دراصل اس وقت ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا تدارک ازحد ضروری ہے۔کیونکہ اس کا تعلق انسانی جان سے ہے اور ملاوٹ کی صورت میں اسے جو خطرہ لاحق ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔