فروری 2019ء: سوئزرلینڈ کے پاکستان میں سفیر ’تھامس کولی (Thomas Kolly)‘ نے سوات کے سیاحتی مقامات اور آثار قدیمہ کا دورہ کیا اور کہا کہ ”وادیئ سوات میں بین الاقوامی سیاحت کے لئے بہت زیادہ امکانات (پوٹینشل) موجود ہیں کیونکہ یہاں قدرتی مناظر‘ بھرپور ثقافتی ورثہ‘ آثار قدیمہ کا خزانہ اور خوش اخلاق لوگ بستے ہیں۔“ سوئزرلینڈ جو کہ سیاحتی پرکشش ممالک کی فہرست میں 21ویں نمبر پر ہے اور سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد غیرملکی سیاح سوئزرلینڈ کی سیر کرتے ہیں تو جب اُس کے سفیر کے منہ سے سوات کی تعریف کے کلمات سنے‘ جو کہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت تھی تو اُس وقت سب سے پہلی ضرورت سوات میں امن و امان کی بحالی محسوس ہوئی۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب سوئس سفارتخانے کے وفد نے انتہائی معمولی سی سیکورٹی کے ساتھ سوات کے عجائب گھر اور بٹکارہ نامی آثار قدیمہ کے مقام کا دورہ کیا جبکہ اس موقع پر صوبائی وزیر سیاحت‘ ثقافت و آثار قدیمہ عاطف خان بھی موجود تھے۔
سوئس سفیر نے کہا تھا کہ بلاشبہ سوات ’حیرت انگیز‘ ہے اور اِس وادی میں دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے کیونکہ یہ صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے اور یہ ثقافتی ورثہ کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا اثاثہ ہے۔“ سوات کو آثار قدیمہ کی یادگاریں اور تاریخ کی شکل میں ایک اور منفرد چیز ملی ہے جو اسے دنیا کے لئے پرکشش جگہ بناتی ہے اور چونکہ کسی ایک جگہ بہت ساری چیزوں کو اکٹھا دیکھا جا سکتا ہے اِس لئے سوئس سفیر کی جانب سے سوات کو حیرت انگیز قرار دیا گیا۔ ستمبر 2022ء: سوات کو نظر لگ گئی۔ حالیہ سیلاب سے خیبرپختونخوا کے اِس منفرد (اپنی مثال آپ) سیاحتی مقام جو کہ کبھی سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا اُور یہاں موسم سرما ہو یا گرما سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی لیکن سوات کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اب ’سیاحت کے عالمی دن‘ کے موقع پر بھی یہاں سیاحوں کی آمد نہیں ہوئی جس کی کئی وجوہات ہیں۔
ا ن میں سے ایک یہ ہے کہ حالیہ سیلاب نے سوات کی شاہراؤں اور بنیادی سہولیات کے ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے جس کی تیزی کے ساتھ بحالی پر کام جاری ہے مگر فی الحال یہاں پر حالات محدوش ہیں۔۔ ذہن نشین رہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے 9 اضلاع میں شامل ’ضلع سوات‘ کی تمام 7 تحصیلیں (بابوزئی‘ بریکوٹ‘ بحرین‘ چارباغ‘ کبل‘ خوازہ خیلہ اور مٹہ) پرکشش مقامات رکھتی ہیں اور 5 ہزار 337 مربع کلومیٹر پر یہ ضلع زراعت و باغبانی کے لئے مشہور ہے۔سوات خاموش و سنسان ہے۔ سال کے اِن دنوں جبکہ موسم گرما اختتام پذیر اور موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے تو موسم کی اِس تبدیلی اور قدرت کی جانب سے خزاں کے رنگوں کو قریب سے دیکھنے کے لئے لاکھوں سیاح اُمڈ آتے تھے لیکن اب سوات میں قیام و طعام کی وہ سہولیات باقی نہیں رہیں جنہیں سیلابی ریلا اپنے ساتھ بہا لے گیا اور سیاحوں کو قیام و طعام سے لیکر سفری خدمات فراہم کرنے والے سینکڑوں ہزاروں لوگ بے روزگار ہیں یا کم آمدنی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سیلاب کے اِن متاثرین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اگر سیاحت کی صنعت اور امن و امان کی بحالی پر فوری توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں ایک مرتبہ پھر ملکی و غیرملکی سیاح سوات کا رخ کریں گے۔ سوات کے ڈپٹی کمشنر جنید خان کے بقول ”سال دوہزاراکیس میں تقریباً تیس لاکھ سیاحوں نے سوات کا دورہ کیا تھا“ کسی ایک سیاحتی مقام سے اِس قدر بڑی تعداد میں سیاحوں کا رجوع کرنا سوات میں اعلیٰ ترین اور بہترین سیاحتی مقامات کی موجودگی کا بیان ہے۔ آل سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان کے بقول ”ہر سال بڑی تعداد میں سیاح سوات آتے تھے‘ جس سے ضلع کو اربوں روپے کی آمدنی (فائدہ) حاصل ہوتا تھا اور سیاحت کا شعبہ ہزاروں کی تعداد میں ’روزگار‘ کا ذریعہ بھی تھا۔ گزشتہ ستمبر سے آنے والے تباہ کن سیلاب نے سیاحت کے شعبہ نہ صرف متاثر بلکہ غیرفعال کر دیا ہے اور اکثریت کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت معاشی بحالی کر سکیں۔