سائنسی تحقیق کے مطابق وہ افراد زیادہ مطمئن اور خوش گوار زندگی بسر کرتے ہیں، جنہیں بچپن میں بے جا روک ٹوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ والدین کی بے جا سختی بچوں کی شخصیت پر بہت زیادہ اور برے اثرات مرتب کرتی ہے۔جو والدین زندگی کو سنوارنے کی کوشش میں پوری طرح اپنی اولاد پر حاوی رہتے ہیں اور نفسیاتی غلبہ رکھتے ہیں، ان کی اولاد بڑی ہو کر بھی فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور مضبوط شخصیت کی مالک نہیں بن پاتی۔ یونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق کے مطابق وہ بالغ افراد، جنہیں والدین نے بچپن میں نفسیاتی طور پر کنٹرول نہ کیا ہو، وہ زیادہ پر اعتماد اور کامیاب شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔والدین کے اس کنٹرول کی دو اقسام ہیں۔ ایک ہے رویے اور برتاؤ پر پابندی۔ یعنی بچہ ابتدائی عمر میں اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے؟
اس لیے ماں باپ کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کرنا ناگزیر ہے، جیسے کہ کون سی خوراک صحت بخش ہے، کون سا تعلیمی ادارہ بہتر ہے، سونے جاگنے کے اوقات اور گھر سے باہر اکیلے رہنا کتنا محفوظ ہے، صحبت اور عادات اختیار کرنے میں رہنمائی وغیرہ وغیرہ۔یہ سب پابندیاں بچوں کی زندگی میں بہت ضروری ہیں اور ذہنی نشوونما میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ شخصیت سنوارتی ہیں اور زندگی میں نظم و ضبط اور قاعدہ لاتی ہیں۔بڑھتی ہوئی عمر کے بچے اکثر اس پابندی پر نالاں رہتے ہیں مگر ایسی نگرانی کے نتیجے میں بہتر تعلیمی کارکردگی اور بہتر سماجی رویہ انہیں صحیح، غلط اور اچھے، برے کی پہچان میں مدد دیتا ہے۔اس کے برعکس اس کنٹرول کی ایک اور قسم نفسیاتی کنٹرول ہے۔ اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو صرف اپنے تجربے کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی آزادی مکمل طور پر سلب کر لیتے ہیں۔
سب سے نقصان دہ عمل یہ ہے کہ جب بچوں کو سب کچھ والدین کی مرضی سے نہ کرنے پر مجرمانہ شرمندگی سے دوچار کیا جاتا ہے۔بچوں کی ذاتی پسند نا پسند کو پوری طرح نظر انداز کر کے ان کے ہر عمل کو اپنے مطابق چلانے کی کوشش انہیں ذہنی الجھا ؤکا شکار کر سکتی ہے۔ اسے جذباتی بلیک میل کرنا بھی کہتے ہیں، جب بچہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھنے سے زیادہ توجہ اس پر دیتا ہے کہ کیا والدین کو برا تو نہیں لگے گا۔ اس طرح وہ اپنی اقدار اور اخلاقیات کو بھی صرف والدین کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور اپنے ہر قدم کی ستائش و منظوری چاہتا ہے۔ بدقسمتی سے اس جذبانی اور نفسیاتی کنٹرول کی ہمارے معاشرے میں عمر کی خاص حد مقرر نہیں ہے۔
روایتی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے ہم اکثر عاقل، بالغ، تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار اولاد کو بھی بڑا نہیں ہونے دیتے۔ ذاتی زندگی کے ہر فیصلے میں دخل اندازی نظر آتی ہے، چاہے وہ اپنی مرضی کے مضامین پڑھنا ہوں، نوکری یا کاروبار کے شعبے کا چنا ؤہو۔والدین کی نامنظوری کا خوف ذہنی نشوونما میں دیر پا رکاوٹ حائل کر دیتا ہے انسان سوچتا ہے کہ اگر میں اپنے والدین یا بڑوں کی کسی بات کو غلط نہیں کہہ سکا یا کسی منفی عمل پر سوال نہیں کر سکا تو یہ حق میری اولاد کو بھی نہیں ہونا چاہئے۔یہاں بات صرف غلط یا منفی عمل پر تنقید کی نہیں بلکہ اکثر اوقات کسی بھی صورت میں مختلف رائے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور کبھی کبھار والدین اس اختلاف کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ نئی نسل کی ذہنی آسودگی، اطمینان اور خوشی کے لیے ہمارا یہ قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ مناسب حدود کا تعین، جو کسی کی انفرادیت کو نہ کچلے بلکہ ایک آزاد رائے اور مضبوط قوت ارادی کا مالک بننے میں مدد کرے۔