شمالی امریکہ کے ملک ’کینیڈا‘ کے شہر ’برامپٹن (Brampton)‘ میں تحریک ِخالصتان کے زیراہتمام رائے شماری (ریفرنڈم) کروائی گئی جس کے حق میں ہزاروں کینیڈین سکھوں کے ووٹ ڈالنے کے بعد‘ کینیڈا اور بھارت کے درمیان عوامی سفارتی جنگ چھڑ گئی ہے۔ بھارت نے کینیڈا سے مذکورہ ریفرنڈم روکنے کی درخواست کی تھی جسے 18 ستمبر کے روز قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اِس کے بعد ریفرنڈم ہوا اور اب کینیڈا نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے سے گریز کے لئے ”ٹائٹ فار ٹاٹ ٹریول ایڈوائزری“ جاری کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کینیڈا کی کل آبادی کا قریب ڈیڑھ فیصد سکھ مذہب کے ماننے والے ہیں اور کینیڈین سکھوں کی کل آبادی قریب 5 لاکھ ہے جو سیاسی و مالی طور پر کینیڈا کی سیاست و سماج پر گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ عالمی سطح پر سکھوں کی کل آبادی قریب 3 کروڑ ہے۔کینیڈا کی جانب سے سکھوں کو بھارت کا دورہ نہ کرنے کی ہدایات کا پس منظر ’تحریک ِخالصتان کی جانب سے ریفرنڈم کے انعقاد‘ کے علاوہ بھارت میں امن و امان کی خراب صورتحال ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارت کے کچھ حصوں اور ”پورے بھارت میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ“ ہے۔
بھارت میں قریب 2 کروڑ 80 لاکھ سکھ آباد ہیں جو دنیا میں سکھوں کی کل آبادی کا قریب 84 فیصد ہے۔ بھارت کی مجبوری اور ضرورت یہ ہے کہ بھارت میں سکھ مذہب کے درجنوں مقدس گرودوارہ یعنی عبادت کے مقامات (بشمول انندپور صاحب‘ گوندوال صاحب‘ گولڈن ٹمپل (ہرمندر صاحب)‘ ہیم کند صاحب‘ پونتا صاحب‘ سری ہند‘ ترن تاران) ہیں جن کی یاترا (زیارات) کے لئے پوری دنیا سے سکھ بھارت کا سفر کرتے ہیں اور یہ مذہبی سیاحت کا یہ سفر بھارت کے لئے آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ پچاس سالہ کینیڈین وزیراعظم ’جسٹن ٹروڈو (Justin Trudeau)‘ سال 2005ء سے برسراقتدار ہیں اور ہر مذہب کے ماننے والے کینیڈینز میں خاصے مقبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے جب ’احتیاطی ہدایات‘ (27 ستمبر کے روز) جاری کیں تو سکھوں کی جانب سے اِس کی مخالفت یا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
کینیڈا کی حکومت نے حصول تعلیم کے لئے بھارت جانے والوں کے لئے اِس سے قبل زیادہ سخت ہدایات جاری کی تھیں اور اُس ’جارحانہ ایڈوائزری‘ کے ٹھیک چار دن بعد ہر خاص و عام کو بھارت کا سفر نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ”کینیڈا“ اِس وقت سکھ علیحدگی پسند تحریک ”خالصتان“ کے حامیوں اور مخالفوں کا مرکز بن گیا ہے اور دنیا کے دیگر ممالک بشمول بھارت میں رہنے والے سکھ بھی کینیڈا کی طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر سکھوں نے اپنا علیحدہ ملک بنانے کے لئے بھارت پر دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے۔کینیڈا کی جانب سے سفری ہدایات میں بھارت کے چند شہروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں گجرات‘ پنجاب اور راجستھان کی ریاستیں شامل ہیں اور کہا گیا ہے کہ اِن علاقوں کے تمام سفر سے اِس لئے گریز کیا جائے کیونکہ وہاں ”بارودی سرنگوں کی موجودگی“ اور ”غیر متوقع (خراب) سیکورٹی صورتحال“ ہے۔
درحقیقت ایک علیحدہ سکھ ریاست کا مطالبہ برطانوی سلطنت کے زوال کے بعد شروع ہوا‘ جسے بعد میں ’خالصتان‘ کا نام دے کر مختلف محاذوں پر باقاعدہ جدوجہد شروع کی گئی۔ 1940ء میں‘ خالصتان کے لئے پہلی واضح کال ایک پمفلٹ میں دی گئی تھی‘ جس کا عنوان ”خالستان“ تھا۔ بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور سیاسی مدد سے‘ خالصتان تحریک شروع ہوئی۔ اِس کی ’جنم بھومی‘ بھارت کا پنجاب صوبہ بنا‘ وہیں کے سکھ اکثریتی علاقوں میں یہ نہایت ہی خاموشی سے پروان چڑھی اور پوری دنیا میں پھیل گئی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں خالصتان تحریک خاموش رہی لیکن 1980ء کی دہائی کے آخر میں یہ تحریک اپنے عروج کو پہنچی اور پھر 1990ء تک سکھوں کے خلاف بھارت کے اقدامات کی وجہ سے یہ تحریک سکھوں کی آبادی کے ساتھ پھیلتی چلی گئی۔
بھارت کی جانب سے سکھوں کے خلاف ’آپریشن بلیو سٹار‘ یکم سے دس جون 1984ء کے درمیان کیا گیا تاکہ ’جرنیل سنگھ بندرانوالہ‘ اور اُن کے حامیوں سے ’گولڈن ٹیمپل (امرتسر)‘ کو خالی کروایا جائے۔ اِس فوجی کاروائی میں بھارت حکومت کے مطابق 83 جبکہ سکھوں کے مطابق 492 افراد قتل ہوئے۔ بعدازاں بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے مذکورہ فوجی کاروائی میں 700 سکھوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔ اِس فوجی کاروائی نے ’خالصتان تحریک‘ میں نئی جان ڈال دی اور الگ صوبے کی حمایت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سال 2018ء کے اوائل میں‘ بھارت نے سکھ عسکریت پسند گروہوں کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کی گرفتاری کے لئے پنجاب میں کاروائیوں کا آغاز کیا۔
حقیقت حال یہ ہے کہ ’خالصتان‘ اب صرف نعرہ نہیں رہا بلکہ یہ دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے سکھوں کا مطالبہ بن گیا ہے اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں مقیم سکھوں نے اِسے سفارتی جنگ کے طور پر ایک نئی بلندی پر پہنچا دیا ہے‘ جہاں اِس کی کامیابی پہلے سے زیادہ واضح (اور ممکن) دکھائی دے رہی ہے۔ کینیڈا کی جانب سے 23 ستمبر اور 27 ستمبر کے روز جاری کی گئی ایڈوائزریز کو صرف سکھ ہی نہیں بلکہ کینیڈا اور دنیا بھر کے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاحوں نے بھی سنجیدگی سے لیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”غیر متوقع سیکورٹی صورتحال اور بارودی سرنگوں اور بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے اُن بھارتی ریاستوں کا سفر نہ کیا جائے جو پاکستان سے دس کلومیٹر تک کے فاصلے پر ہیں۔
پاکستان سے متصل بھارت کے سرحدی علاقوں میں گجرات‘ پنجاب راجستھان وغیرہ شامل ہیں جبکہ درخواست (اپیل) کی گئی ہے کہ ”دہشت گردی اور شورش کے خطرے کے پیش نظر“ آسام اور منی پور کے غیر ضروری سفر سے بھی گریز کیا جائے۔ذہن نشین رہے کہ 18 ستمبر کے روز کینیڈا میں ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ سکھوں نے خالصتان کے قیام کی حمایت میں ہوئے ”پاور شو پروگرام“ میں اپنا ووٹ رجسٹر کروایا اور اِس موقع پر ریفرنڈم میں ووٹ دینے والوں کی پانچ کلومیٹر سے زیادہ طویل قطاریں دیکھی گئیں جو بھارت کے لئے عالمی سطح پر شرمندگی (خفت) کا باعث بنا ہے اس طرح بھارت پر زیرتسلط کشمیر کے بعد پنجاب میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں‘ جس کے دستاویزی ثبوت بھی ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر ایک الگ تحریک کی صورت زیرگردش ہیں۔