حالیہ سیلاب سے متاثرہ لاکھوں ’بے گھر لوگ‘ ٹھہرے ہوئے پانی کے قریب عارضی قیام گاہوں (کیمپوں) میں رہ رہے ہیں جہاں زندگی بسر کرنا آسان نہیں ہے۔ اسہال کی بیماری‘ جلد کے امراض‘ سانس کی نالی کے انفیکشن‘ ملیریا اور ڈینگی جیسی وبائیں پھیلی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے صحت کو لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں اور ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ خسرہ‘ لشمانیا‘ ایچ آئی وی اور پولیو جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں ’صحت عامہ کو لاحق یہ صورتحال‘ انسانی المیے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ صحت کا اہم انفراسٹرکچر جیسے کہ بنیادی صحت کے مراکز سیلاب سے تباہ ہو گئے ہیں جس سے متاثرہ کمیونٹیز کی بنیادی صحت کی دیکھ بھال و سہولیات تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح‘ کمزور معاشی اشارئیے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہونے جیسے حقائق کی موجودگی میں پاکستان ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کا شکار ہے۔ سیلاب کے باعث پاکستان میں وبائی امراض پھیلنے کی شرح بھی بڑھی ہے جو ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک کی نسبت قریب چالیس فیصد زیادہ بتائی جا رہی ہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر پولیو کے کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 2021-22ء مرتب کرنے والوں نے پاکستان میں انسانی ترقی کی صورتحال کو سات درجے کم کیا تھا اور یوں 192ممالک کی فہرست میں پاکستان 161ویں نمبر پر ہے۔ صحت اور موسمیاتی تبدیلی پر ’دی لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن‘ کی 2021ء کی رپورٹ بھی رواں صدی کے درپیش سب سے بڑے بحران جو کہ صحت سے متعلق ہے کی تصدیق کرتے ہوئے خبردار کر رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ منفی اثر صحت پر مرتب ہوگا۔ انسانی صحت اور اِس کے نتیجے میں صحت کے نظام پر بوجھ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے موسمیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے اور جو پہلے ہی خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے وہ سیلاب سے متاثر ہو کر مزید خطرات سے دوچار ہیں!عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا تخمینہ ہے کہ سال دوہزارتیس اور دوہزارپچاس کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں سے ڈھائی لاکھ اموات ہوں گی جن کی وجہ غذائی قلت‘ ملیریا‘ اسہال اور گرمی کا دباؤ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی براہ راست زرعی پیداوار اور پانی کی دستیابی کو متاثر کر رہی ہے‘ جس سے خوراک اور پانی کے عدم تحفظ کا خطرہ ہے۔ آغا خان یونیورسٹی (کراچی) کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں بڑھتے ہوئے موسمیاتی درجہ حرارت اور گندم و چاول جیسی اہم فصل میں پروٹین اور مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کو ثابت کیا گیا ہے اُور کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے صرف زرعی پیداوار ہی کمی کی صورت متاثر نہیں ہو رہی بلکہ زرعی پیداوار کا معیار بھی خراب ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں میں غذائیت کی کمی سے اُن کی جسمانی نشوونما اور پیداواری صلاحیت کے مستقل طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ بچے شدید اسہال کی بیماری اور ڈینگی بخار کا بھی زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بدلتے ہوئے موسمی نمونوں کی وجہ سے ڈینگی کی منتقلی کے عمل اور دورانئے (پھیلاؤ) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ درجہ حرارت کی یہ انتہا محنت کش طبقے (لیبر فورس) کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ دوسری طرف بزرگ شہری خاص طور پر گرمی کے دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ آخر میں‘ آب و ہوا کی تبدیلی کے بہاؤ کا اثر جیسا کہ نقل مکانی‘ غربت میں اضافہ‘ پرتشدد تنازعات اور ذہنی بیماریاں ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا پاکستان کیلئے موسمیاتی خطرات بارے تنبیہ جاری کی گئی ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک بھر میں سالانہ اوسطاً درجہ حرارت اور بارش میں اضافہ ہو رہا ہے اور آئندہ چند برس میں پاکستان کے موسمیاتی درجہ حرارت میں اوسطاً اضافہ عالمی اوسط سے تین ڈگری سیلسیس سے لیکر پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان بڑھ سکتا ہے جو غیرمعمولی اضافہ ہے۔ سیلاب سے متاثرہ اور غیرمتاثرہ پاکستانی یکساں طور پر ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ سے متاثر ہیں۔ شہریوں کی جسمانی‘ ذہنی اور سماجی بہبود کو یقینی بنانے کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کا لچکدار نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے اور اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ صحت کے نظام میں بروقت (فوری و ترجیحی بنیادوں پر) سرمایہ کاری کی جائے۔ اس میں ماحولیاتی تحفظ کی صحت کی سہولیات اور دیہی علاقوں میں علاج معالجے کی سہولیات کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری‘ موسمیاتی تبدیلی کے صحت کے خطرات کے بارے میں بیداری میں اضافہ‘ کمیونٹی کی بنیاد پر صحت کے موافقت کا فروغ‘ صحت کی دیکھ بھال کرنے والی افرادی قوت کی آب و ہوا سے متعلق صحت کے مسائل کا جواب دینے کی صلاحیت اور بیماریوں سے محفوظ زندگی تک رسائی یقینی بنانا شامل ہیں۔ اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے بروقت اقدامات کئے گئے تو کسی نئی ’ہنگامی صورتحال‘ کا سامنا کئے بغیر اور علاج معالجے پر زیادہ اخراجات کی بچت بھی ممکن ہے۔ پاکستان میں ایک مشترکہ بین الوزارتی ٹاسک فورس برائے صحت اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارتوں نے نیشنل ہیلتھ ایڈاپٹیشن پلان تیار کیا تھا جس پر عمل درآمد ’کورونا وباء‘ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔ قومی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ صحت عامہ سے متعلق بنیادی ضروریات اور خدمات کی مقدار و معیار میں اضافہ کرنے کو دوبارہ قومی ترجیح کا حصہ بنائیں اور مستقبل کے موسمیاتی بحرانوں کا جواب دینے کے لئے سرکاری اداروں (وفاقی‘ صوبائی اور مقامی) تعلیمی اداروں‘ نجی شعبے اور ملکی و غیرملکی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ مستقبل کی موسمیاتی آفات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لئے ابھی سے تیاری کرنی چاہئے اور اِس تیاری میں سرفہرست صحت کی دیکھ بھال سے جڑے نظام کی مضبوطی ضروری ہے اگر صحت کو لاحق خطرات اور فوری ضرورت کا فوری احساس کرتے ہوئے ”منصوبہ بندی اور شراکت داری“ جیسے اقدامات کر لئے گئے تو مستقبل کے بہت سے خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی جائے گی اور اچانک ظاہر ہونے والے ہنگامی حالات سے نمٹنے میں جو قومی وسائل ضائع ہوتے ہیں اُن کی بچت بھی بڑی حد تک ممکن ہو جائے گی۔