کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے کا سبب ’گرین ہاؤس گیسیز‘ کا اخراج یعنی ایسے مضر ماحول محرکات ہوتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ’اوزون کی لہر‘ میں شگاف پیدا ہوتے ہیں یا اِس کی تہہ باریک ہو جاتی ہے۔ عالمی سطح پر ماحول کو نقصان پہنچانے والے ممالک میں پاکستان کی حصہ داری ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اِسے زیادہ بارشوں اُور سیلاب کی صورت ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ پاکستان صرف ایک فیصد ’گرین ہاؤس گیسیں‘ پیدا کرتا ہے جو گلوبل وارمنگ کا سبب بنتی ہیں۔“ اِسی طرح وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی کہا ہے کہ ”ملک میں تباہ کن سیلابوں کے لئے بنیادی طور پر وہ ممالک ہیں جنہوں نے ماحولیاتی بہتری سے متعلق اپنا کردار ذمہ داری سے ادا نہیں کیا۔ اُنہوں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ماحول کے توازن کو بگاڑنے والے پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کی بہت کم مدد کر رہے ہیں۔ وزرأ ہر فورم پر اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دنیا کو پاکستان کی موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کی صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔
پاکستان کے حالیہ سیلاب سے سندھ میں کپاس کی پوری فصل تباہ ہو چکی ہے اور کپاس ہی پاکستان کی سب سے بنیادی برآمدی جنس (نقد آور فصل) ہے۔ اِس صورتحال میں کاشتکاروں اور کسانوں پر مشتمل محنت کش طبقے کی امداد وقت کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم ضرورت ایسے بیجوں کی ہے جو سیلاب سے متاثرہ اراضی میں بھی یکساں بہتر فصل دے سکیں اور آئندہ برس میں بوئے جا سکیں۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ بنیادی نکتہ رکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جن فصلوں کی کٹائی کی جانی تھی وہ تباہ ہو چکی ہیں اور ملک کو خوراک کے عدم تحفظ جیسے غیرمعمولی خطرہ کا سامنے ہے۔ وزیر احسن اقبال نے نشاندہی کی ہے کہ سیلاب متاثرین کی جاری امداد سے کہیں زیادہ مدد کی ضرورت ہے اور ملک کو آنے والی تباہی سے نمٹنے کے لئے دو سالہ منصوبوں کی ضرورت ہے۔ درحقیقت‘ موجودہ تباہی کے پیمانے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ سندھ سے اطلاعات ہیں کہ وہاں کے نشیبی علاقے تقریباً چھوٹی بڑی جھیلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور جو لوگ عارضی قیام گاہوں یا خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔
اُن کے لئے امدادی سرگرمیوں کو وسعت دینا ہوگی کیونکہ وہ بہت جلد اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل (خودکفیل) نہیں ہو سکیں گے۔ تاحال سیلاب سے متاثرہ کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کے رہنے والوں کو ابھی تک ریلیف نہیں ملا اُور اِس کی بنیادی وجہ مذکورہ علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کی وارننگ کہ جو کچھ سیلاب بہا لے گیا ہے اسے پھر سے واپس حاصل کرنے (زرعی معیشت و معاشرت کی بحالی) میں دو سال لگ سکتے ہیں اور یہ بات سیلاب متاثرین کے لئے مزید پریشانی کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کے لئے زیادہ سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے سیلاب کی وجہ سے جو قریب سولہ سو افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اُنہیں مختلف بیماریوں ڈینگی‘ ملیریا‘ ہیضہ‘ گیسٹرو و دیگر سے بچانے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے کیونکہ لوگ انتہائی بدحالی و کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اُور اِنہیں اس صورتحال سے نجات دلانے کے لئے زیادہ کچھ کرنا ہوگا۔
پارلیمینٹ کی جانب سے ’لیونگ انڈس‘ حکمت عملی کی منظوری قابل قدر اقدام ہے جس کا بنیادی مقصد مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اُور ماحولیاتی خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ جب کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے ناگزیر نتائج سے خود کی بچانے فکر نہیں کی جائے گی اُور اِس سلسلے میں ہر ممکنہ عملی کوششیں بھی نہیں ہوں گی اُس وقت تک صورتحال تبدیل نہیں ہوگی۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو ترقی پذیر دنیا کے ساتھ مل کر گلوبل نارتھ سے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے معاوضے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ چونکہ پاکستان ایسا پہلا متاثرہ ملک ہے اِس لئے عالمی سطح پر موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کیا جائے اور دوسری طرف ملک میں آب و ہوا کے تحفظ کے لئے شعور اُجاگر کرتے ہوئے اُن اقدامات سے بھی گریز کیاجائے جو ماحول دشمن ہیں۔ انسان کی بقا قدرت کے بنائے ہوئے نظام کے ساتھ زندہ رہنے میں ہے اگر اِس نظام کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر تبدیل کیا گیا تو اِس کے حالیہ سیلاب سے زیادہ بھیانک نتائج سامنے آئیں گے‘ جو کوئی بھی دیکھنا نہیں چاہے گا۔