’فخر پشاور‘ کا اعزاز حاصل کرنے ڈاکٹر علی جان سیاحتی امور کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت اور وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاحت بھی رہے ہیں اور قومی و بین الاقوامی جریدوں کے لئے من پسند موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ قومی ورثہ پر آپ کی تحقیق و تحریریں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر علی جان نے اپنے ’فیس بک‘ پیج پر لاہور چھاؤنی سے گزرتے ہوئے ایک ایسی تبدیلی دیکھی جو نہایت ہی خاموشی سے متعارف کروائی گئی لیکن چاہتے ہیں کہ اِس کا چرچا ہونا چاہئے۔ صوبہ پنجاب کے دارالحکومت ’لاہور‘ میں شاہراؤں کے پرانے نام اور نئے ناموں کو ایک ہی بورڈ پر (یکجا) کر کے لگایا گیا ہے۔ یہ پرانے نام جو قیام پاکستان کے بعد کسی بھی وجہ اور مختلف مواقعوں پر تبدیل کر دیئے گئے تھے رفتہ رفتہ فراموش ہو جاتے اور اِن کا ذکر صرف کتابوں کی حد تک محدود ہوتا لیکن اِنہیں پھر سے زندہ کر دیا گیا ہے۔ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ (ایل سی بی) کے اِس مثالی عمل سے نہ صرف تاریخ و ثقافت کو محفوظ و اجاگر کیا گیا ہے بلکہ نئی نسل کو شاہراؤں کے قدیمی ناموں سے روشناس کرنے کی بظاہر یہ چھوٹی (معمولی) سی کوشش اِس لحاظ سے بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کے سیر کے لئے آنے والے سیاح اپنے ساتھ ماضی و حال کی تاریخ سے چند عنوانات بھی ساتھ لے جائیں گے۔
اُمید یہ بھی ہے کہ لاہور کی طرح ملک کے دیگر حصوں بالخصوص پشاور میں بھی شاہراؤں‘ بازاروں اور گلی کوچوں کے تبدیل شدہ نام بھی آویزاں کئے جائیں گے۔ امریکہ تاریخ داں ڈیوڈ (David McCullough) کا قول ہے ”تاریخ ہمارا تعارف ہے اور تاریخ ہی ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم کیا ہیں اور کس سمت میں سفر کر رہے ہیں۔“ تاریخ کا یہ سفر ’بے سمت‘ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی آگے بڑھنے کی لگن میں ماضی کی یادیں فراموش کرنی چاہئیں‘ لاہور چھاؤنی کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے تاریخ کو گم ہونے سے بچانے اور اِسے محفوظ رکھنے کی عملاً کوشش کی ہے۔لاہور کنٹونمنٹ کی شاہراؤں کے موجودہ اور قدیمی ناموں پر مشتمل نیلے رنگ کے بورڈز آویزاں کئے گئے ہیں جن پر اِن شاہراؤں اور علاقوں کے پرانے نام بھی لکھے ہوئے ہیں جیسا کہ موجودہ ’باغ علی روڈ‘ کا پرانا نام ’لدھیانہ روڈ‘ تھا۔ عزیز بھٹی روڈ کا پرانا ’سینٹ جان روڈ‘۔ عابد مجید روڈ کا پرانا نام ’فیدرسٹن روڈ‘ اور طفیل روڈ کا پرانا نام ’ویلنگٹن روڈ‘ ہے۔ یوں لاہور کنٹونمنٹ جو اپنی صفائی‘ خوبصورتی اور وسعت میں مثالی تھا لیکن اب اِسے دیکھنے والوں کے لئے دلچسپی کا نیا سامان (مواد) فراہم کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں درجنوں نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے سینکڑوں شاہراؤں‘ گلی محلوں اور بالخصوص چوراہوں کے نام تبدیل ہو چکے ہیں۔ تاریخ داں‘ سلطان الذاکرین‘ اخونزادہ مختار علی نیئر (تمغہ امتیاز) ”وفات: دس جون دوہزارنو“ نے تاریخ پشاور کے عنوان سے کئی پہلوؤں کا تذکرہ اور احاطہ نہایت ہی دردمندی سے کیا‘ جو رہتی دنیا تک ’پشاور شناسی‘ کا مستند حوالہ رہے گا۔
آپ نے لکھا کہ ”یوں تو پشاور کا چپہ چپہ اپنے پس منظر میں ایک مستند تاریخی حوالہ رکھتا ہے اور اِس کے بعض گوشوں کی تاریخ تو قبل مسیح کے عہد کو بھی چھوتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن بیسویں صدی کے دوسرے آدھے حصے (موجودہ اکیسویں صدی) میں جہاں پر پوری دنیا میں سائنسی ایجادات و انقلابات نے ہلچل مچا رکھی ہے اِس سے پشاور کے رہنے والے اور اِس کی سرزمین کی تاریخ و ثقافت کی یادگاریں بھی محفوظ نہیں رہیں ہیں (المیہ ہے کہ) کہیں اندرون و بیرون علاقوں کے ”قدیمی نام“ بدلے جا رہے ہیں تو کہیں پشاور کے آثار قدیمہ کا وجود خطرے میں ہے۔ کہیں نئی روشنی یا پھر مغربی تہذیب کی روشنی آنکھوں کو یوں چندھیا رہی ہے کہ خیرگی نے چشم حیادار کو چشم خونخوار بنا دیا ہے۔ رواداری‘ ایک دوسرے کا لحاظ پاس‘ مروت‘ بھائی چارہ اور اخوت جس کا مظاہرہ عمومی بول چال سے خصوصی معاشرت تک جابجا پھیلا دکھائی دیتا تھا اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا اور پشاور کی وہ سبھی خصوصیات کم کم دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا تذکرہ کتابوں میں پڑھ کر آنکھیں خراج عقیدت کے نذرانے پیش کرتی ہیں اور کیا ہی دن تھے اور کیا ہی لوگ تھے جن کی بدولت پشاور کا ماحول پرامن ہوا کرتا تھا۔ وہ محبت بھری مجلسی زندگی کے ضامن ہوا کرتے تھے جب ان میں کمی آئی تو لازماً وہ اقدار بھی ناپید ہوتی چلی گئیں جو کہ قدیم الایام سے پشاور کی پہچان اور تعارف ہوا کرتی تھیں، اگر بچے کچے آثار بھی کاغذ پر ہی سہی لیکن محفوظ نہ کئے گئے تو پھر ہزاروں سال پرانے پاکستان کے چند قدیم ترین زندہ شہروں میں شامل ’پشاور‘ کا ’پس منظر‘ کھو جائے گا۔ کیا ہمیں گم ہوتے اور گمشدہ پشاور کا خاموش تماشائی بنے رہنا چاہئے؟ ہرگز نہیں اور وقت ہے کہ پشاور کے بارے میں جدید تصورات قدیمی حوالوں پر حاوی ہونے نہ دیئے جائیں۔
یادش بخیر قدیم پشاور جو ایرانیوں اور یونانیوں کی حکمرانی کے زمانے میں ’تجارتی راہداری‘ مرکزی منڈی اور آرام گاہ ہوا کرتا تھا اور یہاں برصغیر‘ ایران‘ افغانستان‘ بلخ‘ بخارہ‘ تاشقند‘ روس اور چین سے آنے والے قافلے پڑاؤ کرنے کے لئے بیتاب ہوتے تھے اور یہی پشاور ’بدھ مت‘ کا صدر مقام رہا یعنی ہر دور میں فرہنگی دفاعی اور جنگی اہمیت و افادیت کے حامل پشاور کی تاریخ کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ یہ کئی مرتبہ اُجڑا اور پھر بسا اور پر مرتبہ کوئی نہ کوئی سخت جان یادگار اِس کے سینے پر رہ گئی جو آج مٹتی نظر آ رہی ہے۔ ہزاروں سال تک مرکزی شہر (منڈی) کے طور پر استعمال ہونے والے پشاور میں ہر ذات‘ نسل‘ قبیلے کی موجودگی ثابت ہے اور اِسی لئے پشاور کو ”ہفت زبان شہر“ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا اِس ہفت زبان شہر کے قدیمی نام‘ القابات اور شناختی پہلوؤں کی اہمیت کا احساس کیا جانا چاہئے؟ امانت و دیانت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پشاور کے حقوق کا تحفظ اور حقوق کی ادائیگی کا سامان ہونا چاہئے۔ قانون سازی کی ضرورت ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے کسی بھی علاقے یا مقام (سڑک‘ چوراہے‘ یا گلی کوچے) کا نام تبدیل کرنے پر پابندی عائد ہو اور جن مقامات یا علاقوں کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں وہاں قدیمی نام بھی آویزاں کئے جائیں تاکہ پشاور کی تاریخ کا ایک اہم باب آنے والی نسلوں (آئندہ زمانے کیلئے) محفوظ کیا جائے۔”شہر پناہ کی دیواروں پر اک دزدانہ آہٹ ہے …… اور میں اس کو دیکھ رہا ہوں شہر تو سارا نیند میں ہے۔ (رضی اختر شوقؔ)۔“