علاج: نئی حکمت عملی


خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی سہولیات کو زیادہ بہتر اور حسب ضرورت توسیع دینے کے لئے ضلعی و علاقائی سطح پر ’ادویات کی مفت فراہمی‘ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں اُن خصوصی امراض کی ادویات بھی علاقائی سطح پر بلاقیمت فراہم کی جائیں گی‘ جو انتہائی مہنگی ہیں۔ خوش آئند ہے کہ محکمہئ صحت نے ”صحت کارڈ پلس“ پر علاقائی ہسپتالوں میں بلڈ کینسر کے مریضوں کو ادویات مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایسے مریضوں کو پشاور کا رخ نہ کرنا پڑے‘ جہاں انہیں یہ ادویات دستیاب ہوتی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ صوبائی حکومت نے سال دوہزارچودہ سے ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس (پشاور)‘ کے شعبہ آنکولوجی میں بلڈ کینسر (خون کے سرطان) کے مریضوں کو مفت ادویات فراہم کر رہی ہے لیکن ایسے مریضوں کو ہر ماہ دور دراز علاقوں سے مفت ادویات حاصل کرنے کے لئے پشاور آنا پڑتا ہے۔ حکومت نے صحت کے بیمہ (کارڈ پلس) میں کینسر کے علاج کو شامل کیا ہے تاکہ مریضوں کو اُن کے آبائی علاقوں میں مفت ادویات مہیا کی جا سکیں۔ اِس سلسلے میں شروع کئے گئے مفت کینسر علاج کے پروگرام سے خون کے کینسر کے بیس ہزار سے زیادہ مریضوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہو گیا ہے جو سال دوہزارچودہ سے کمپلیکس ہسپتال کے آنکولوجی وارڈ میں ماہانہ بنیادوں پر مفت چیک اپ اور ادویات حاصل کر رہے ہیں۔صحت کارڈ پلس پروگرام کسی بھی طرح نعمت سے کم نہیں بالخصوص جب ہم کینسر کی بات کرتے ہیں کہ اِس کے مریضوں کو مفت ادویات مل رہی ہیں اور نئے مرحلے میں ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ لوگ پشاور آنے پر مجبور نہ ہوں اور وہ اپنے ہاں ضلعی و علاقائی سرکاری علاج گاہوں سے ادویات حاصل کر سکیں۔ اس منصوبے پر مرحلہ وار کام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت بنوں‘ ہزارہ‘ مالاکنڈ‘ سوات اور دیگر ڈویژنز و اضلاع میں مریضوں کو بھی مفت ادویات ملنا شروع ہو جائیں گی۔ سردست کینسر کے مریض پشاور‘ ایبٹ آباد‘ سوات‘ بنوں‘ اسلام آباد اور کراچی میں مفت سرجیکل اور کیموتھراپی کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ صحت کارڈ پلس میں نئے منصوبے کے آغاز سے خون کے کینسر کے غیر داخل شدہ مریضوں کو بھی مفت ادویات فراہم کی جائیں گی۔ اب تک ’صحت کارڈ پلس‘ کے تحت ’او پی ڈی‘ کے تمام مریضوں کو ادویات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ صرف اُنہی مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی ہیں جو ہسپتال میں داخلے کی صورت زیرعلاج رہتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی دلچسپی سے صحت کارڈ پلس میں خون کے کینسر کے مریضوں کو ادویات کی فراہمی کی سہولت دی گئی ہے جو ایک مثالی (لائق تحسین) اقدام ہے اور اِسی کے تحت علاقائی سطح پر سیٹ اپ قائم کرنے کے لئے فاسٹ ٹریک پر کام جاری ہے‘ تاکہ مریضوں کو مفت ادویات دینے کے لئے رجسٹر کیا جا سکے۔ خیبر پختونخوا اور نئے ضم ہونے والے اضلاع کے تمام باشندے ’صحت کارڈ پلس‘ پر مفت طبی خدمات حاصل کرنے کے اہل (حقدار) قرار دیئے گئے ہیں اور یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اِس بیمثال حکمت عملی سے ایک کروڑ ستر لاکھ (10.7ملین) خاندان خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم 203 ہسپتالوں سے مفت طبی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں گیارہ سو ایسے ہسپتال بھی ہیں جو خیبر پختونخوا سے باہر یعنی پنجاب و سندھ وغیرہ میں ہیں جہاں خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا قومی شناختی کارڈ دکھا کر علاج معالجہ کروا سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کینسر میں مبتلا مریضوں کو دو طرح کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک قسم کا علاج ریڈیو تھراپی‘ کیموتھراپی اور سرجری ہے جبکہ دوسری قسم کے علاج میں مریضوں کو صحت کارڈ پلس پر مفت علاج معالجہ فراہم کیا جاتا ہے۔ جہاں تک خون کے کینسر کی بات ہے تو قبل ازیں صرف اُنہی مریضوں کو مفت ادویات دی جاتی تھیں جو ہسپتالوں میں قیام پذیر رہتے تھے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کینسر کا علاج خاصا مہنگا ہے اور زیادہ تر لوگ اِس کے علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال سے کینسر کے علاج کے لئے رجوع کرنے والوں کو ہر ماہ پشاور آنا پڑتا ہے جبکہ صوبائی دارالحکومت سے دور رہنے والوں کے لئے یہ ایک مشکل کام ہے۔ بلڈ کینسر کا علاج مہنگا اور عمر بھر جاری رہتا ہے اور مریضوں کو مستقل بنیادوں پر ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی حکمت عملی (پراجیکٹ) کے تحت‘ ایسے لوگوں کا علاج نہیں کیا جاتا جو سرطان کے کسی آخری سٹیج (مرحلے) سے گزر رہے ہوں۔ ایسے افراد کو اپنا طرز زندگی بہتر بنانے کا مشور دیا جاتا خون کے کینسر میں مبتلا بالغ مریضوں میں علاج کی شرح تقریباً پچاسی فیصد ہے جبکہ بچوں میں یہ شرح ستر فیصد ہے۔ یہ صورتحال اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ بلڈ کینسر سے متاثرہ مریضوں کی کل تعداد میں بیس فیصد مریض بچے ہوتے ہیں اور ایک مریض کے علاج پر پانچ سے دس لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ خرچ آتا ہے۔ حکومت اب تک ’صحت کارڈ پلس‘ کے تحت تیرہ لاکھ مریضوں کے مفت علاج پر 33ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ صوبے کی پوری آبادی تک توسیع کے بعد اس پروگرام کے ماہانہ اخراجات ڈھائی ارب روپے سے زیادہ ہیں۔