بڑے معرکے کی تیاری

کرکٹ کی دنیا کے بڑے معرکے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز 16 اکتوبر سے ہو رہا ہے۔قومی ٹیم مہمان انگلینڈ سے سات میچوں کی سیریز چار تین سے ہارنے کے بعد بڑے معرکے میں شرکت کے لئے روانہ ہو چکی ہے۔انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں قومی ٹیم نے جو میچ جیتے ہیں وہ انتہائی کم مارجن سے جیتے۔کھیل کے تینوں شعبوں بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں قومی ٹیم کی کوتاہیاں اور کمزوریاں صاف نظر آرہی تھیں۔خاص طور پر ہماری مڈل آرڈر بیٹنگ کا معیار غیر تسلی بخش ہے۔کپتان بابر اعظم سمیت جارحانہ کھیلنے والے زیادہ تر کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہیں۔ اگر اوپننگ کھلاڑی ابتدائی اوورز میں آؤٹ ہو جائیں تو پوری ٹیم دباؤ میں آتی ہے۔عالمی کپ کے مقابلے آسٹریلیا کی تیز پچوں پر ہونے جا رہے ہیں۔ان میں ہمارے تیز گیند باز بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں مگر بلے بازوں کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔کیونکہ شارٹ پچ گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے اکثر بلے باز غلطیاں 
 کرتے اور اپنی وکٹیں گنواتے ہیں اور مخالف ٹیموں کے تیز گیند بازوں کو ہمارے بلے بازوں کی اس کمزوری کا علم ہے اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں کپتان بابر اور رضوان اوپننگ کرتے ہیں۔ان کا بلا چل جائے تو کسی بھی باؤلر کی پھینٹی لگا سکتے ہیں لیکن اگر وہ آؤٹ ہو جائیں تو بعد میں آنے والے بلے باز بھی حوصلہ ہار جاتے ہیں۔انجری کا شکار شاہین شاہ اور کورونا میں مبتلا نسیم شاہ کس حد تک فٹ ہوتے ہیں اسی پر پاکستان کی باؤلنگ اٹیک کا پورا انحصار ہے۔نامور بھارتی بلے باز سنیل گواسکر کہتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم دنیا کی
 انتہائی غیر متوقع ٹیم ہے جب ان کا دن ہو۔ تو دنیا کی کوئی بھی ٹیم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور زنگ آلود کارتوس بھی چل جاتے ہیں۔لیکن پاکستان کا دن کب آتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ ٹیم کو لڑانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری باؤلنگ اور بیٹنگ کوچز کی بنتی ہے۔ ہمارے کوچز کھلاڑیوں کو اکثر دفاعی کھیل کھیلنے کی تلقین کرتے ہیں۔حالانکہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے والے کبھی نہیں جیت سکتے۔کھلاڑیوں کو اپنا فطری انداز اپنانے کی آزادی دینی چاہئے۔ فخر زمان، بابر، رضوان، حیدر علی اور آصف علی کو آپ اگر دفاعی انداز میں کھیلنے پر مجبور کریں گے تو اپنی چال بھول جائیں گے اور کبھی آپ کو مطلوبہ نتیجہ نہیں دے سکتے۔مقابلوں میں صرف جارحانہ انداز اپنانے والی ٹیمیں ہی مد مقابل کو دباؤ میں لاتی اور غلطی کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔خاص کر جب بات ہو ٹی ٹوئنٹی کی تو یہاں پر وہی ٹیم جیتتی ہے جو جان لڑا کر بے جگری سے کھیلے۔یعنی یہاں پر جارحانہ انداز اپنانے والے ہی بازی لے جاتے ہیں۔ پاکستانی کوچز کو اب اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ غیر ضروری طور پر محتاط اور دفاعی حکمت عملی سے جیتے ہوئے میچز ہم ہارنے لگے ہیں۔ایک اور حقیقت جو کھل کر سامنے آئی ہے کہ ہم جو میچز جیتتے ہیں تو بہت کم فرق سے اور جب ہارتے ہیں تو بہت زیادہ اور نمایاں فرق سے۔ اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ ہماری ٹیم مضبوط نہیں۔ کیونکہ مضبوط ٹیمیں ہارتی ہیں بہت کم مارجن سے جبکہ وہ میچز جیتتی ہیں بہت بڑے فرق کے ساتھ،انگلینڈ کے ساتھ یہ کچھ ہوا۔ کہ اس نے پاکستان کو جب بھی شکست دی بڑے مارجن سے جبکہ انگلینڈ جو میچ ہارا ہے تو وہ بہت کم فرق سے۔قومی ٹیم کو نمبر ون بننے کیلئے اور ورلڈ کپ جیتنے کیلئے اب نئی حکمت عملی کے تحت جارحانہ کھیل پیش کرنا ہوگا، دوسری صورت میں نتائج  کے حوالے سے زیادہ خوش فہمی میں رہنا بے وقوفی ہوگی۔