”چڑیا گھر“ پشاور کی انتظامیہ نے ہم زمین جانداروں بالخصوص ”چڑیا گھر“ کے باسیوں کے بارے میں شعور و آگاہی پھیلانے کے لئے خصوصی مہم کا آغاز کیا ہے جس دوران طلبہ کو مختلف جانوروں‘ پرندوں اور رینگنے والے حشرات الارض کے بارے میں بہتر تفہیم کے لئے عملی تعلیم فراہم کی جائے گی اور اِس مقصد کے لئے ’آؤٹ ڈور‘ کلاسز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ منتظمین کے مطابق چڑیا گھر کے احاطے کو ’کلاس روم‘ سے تبدیل کیا گیا ہے جس سے چڑیا گھر کی سیر کے لئے آنے والے اپنے ساتھ صرف اچھی یادیں اور تفریح ہی نہیں بلکہ علم بھی لے کر جائیں گے اور جب ہم جانوروں کے بارے میں زیادہ جانیں گے تو اُن کا خیال رکھنے سے متعلق اپنی ذمہ داری (فرائض) کی ادائیگی بھی زیادہ بہتر انداز سے کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ چڑیا گھر پشاور کے ایک حصے کو ’اوپن ائر کلاس روم‘ میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں پیشگی مطلع کر کے آنے والے طلبہ کو جانوروں سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں گی اور اُن کے سوالات کا جوابات بھی دیئے جائیں گے۔ اِس دو طرفہ تعلیم کا مقصد چڑیا گھر کی سیر کے لئے آنیو الوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بھی ہے تاکہ چڑیا گھر کی آمدنی بڑھ سکے۔منفرد تعلیمی حکمت عملی کی اہمیت اِس لئے بھی زیادہ ہے کہ اگر طلبہ اپنے ہم زمین جانداروں کے بارے میں جانکاری رکھیں گے تو اِس سے اُنہیں مزید جاننے کی لگن پیدا ہوگی اُور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سے جانداروں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے پہلے اِس کرہئ ارض پر بسائے گئے تھے اِس لئے جانداروں کی عادات اُور اُن کے روئیوں کا مطالعہ کرنا درحقیقت فطرت کو سمجھنا ہے۔ چڑیا گھر پشاور میں ابتدائی طور پر بچوں کو فطرت اور حیاتیاتی تنوع کی اہمیت اور اِس سے متعلق عملی مشقوں کے ذریعے ایک منفرد موضوع سے متعارف کرایا جائے گا اور اِس کوشش کو نظم و ضبط سے چلانے کے لئے دس تعلیمی اداروں سے رابطہ کیا گیا ہے۔ سیر ہی سیر میں جانوروں کے بارے میں تحقیق کا جذبہ پیدا کرنے کی اِس منفرد کوشش کے لئے چڑیا گھر میں مختلف اشیا بھی آویزاں کی گئیں جن میں مختلف پرندوں کے پنکھ‘ دانت‘ اعضا شامل ہیں جبکہ میگنفائنگ گلاسز بھی فراہم کئے جائیں گے جن کے ذریعے طلبہ ہم زمین مخلوقات کو زیادہ قریب سے دیکھ سکیں گے اور باریک بینی سے کئے گئے اِس مطالعے میں اُمید ہے کہ اُن کی دلچسپی زیادہ بڑھے گی کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہر نئی چیز کے بارے میں علم کے ساتھ اُس کے بارے میں مزید جاننے کی جستجو بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ طلبہ کو تحقیقی طریقوں اور مختلف انواع کی بیماریوں کے تحفظ کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہیں لیکن اگر احتیاط سے کام لیا جائے تو یہی جانور انسان دوست رہتے ہیں۔ جانوروں کے بارے میں زیادہ گہرائی و تفصیل سے جاننے کے لئے ’مائیکروسکوپ‘ کا بندوبست بھی زیر غور ہے۔ اِس کوشش سے قبل بھی پشاور کے چڑیا گھر کی انتظامیہ مختلف طریقوں سے سیاحوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی رہی ہے جیسا کہ ’جنگلی حیات‘ کی اہمیت اور اُن کے تحفظ اُور حقوق کے بارے میں پیغامات کاپیوں کی پشت پر شائع کرنے کے لئے ایک نجی تعلیمی ادارے سے رابطہ کیا گیا ہے اُور اگر اِس مقصد میں کامیابی ہو گئی تو دیگر تعلیمی اداروں کی سکول کاپیوں میں بھی اِسی قسم کے پیغامات شائع کئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ’پشاور ماڈل سکول‘ نے پہل کرتے ہوئے کتابوں اور کاپیوں کے پیچھے جانوروں کی تصاویر اُور پیغامات شائع کئے ہیں‘ جو اپنی نوعیت کی ایک منفرد کوشش ہے۔ طلبہ کو حیاتیاتی تنوع کے بارے میں آگاہی دینے کے لئے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے مختلف پرندوں کے پروں‘ جانوروں کے سینگ اور یہاں تک کہ اُن کے انڈے بھی نمائش کیلئے رکھے ہیں تاکہ جانوروں کے انڈے اور اُن کی پیدائش سے افزائش تک کے مراحل سے طلبہ کو آگاہ کیا جاسکے۔اس سرگرمی کے پیچھے بنیادی مقصد ’عملی تربیت ہے جسے تعلیم کے جدید تصورات میں خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ پشاور چڑیا گھر نے یونیورسٹی کی سطح کے طلبہ کے لئے بھی الگ سے حکمت عملی وضع کی ہے جس کے تحت مختلف جانوروں‘ پرندوں یا رینگنے والے جانوروں پر تحقیق کے کام کی حوصلہ افزائی‘ خاطرخواہ رہنمائی اور ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اِسی طرح ڈاکٹریونیورسٹی کے طلبہ کو جانوروں سے متعلق اپنی تحقیق آگے بڑھانے میں سہولت فراہم کریں گے جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد تعاون ہے۔ اگرچہ اِس پوری حکمت عملی میں سرکاری تعلیمی اداروں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن اُمید کی جا سکتی ہے کہ نجی تعلیمی اداروں اور جامعات سے شروع کئے جانے والے پروگرام کے آئندہ کسی مرحلے میں ضلع پشاور کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے سرکاری تعلیمی اداروں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ چڑیا گھر انتظامیہ نے جانوروں کے حقوق و تحفظ اُور دیکھ بھال سے متعلق پیغامات کی تشہیر کے لئے سوشل میڈیا وسائل کا بھی استعمال کر رہی ہے جو اپنی جگہ اہم ہے تاہم ایسی کوششوں کو مزید مربوط و فعال اور اِن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی ضرورت ہے۔