ایک طرف ملک میں پانی کی کمی سے مسائل پیداہورہے ہیں اور فی کس پانی کی دستیابی کی شرح کم سے کم ہوتی جارہی ہے دوسری طرف جب کبھی سیلاب آتاہے تو ہمارے پاس یہ قیمتی اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حالیہ تباہ کن سیلاب سے یہ ”سبق“ ملتا ہے کہ اگر فوری طور پر بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے گئے تو ملک کو آگے چل کر نہ صرف ایسی مزید آفات کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ آئندہ دس سال میں پینے کیلئے بھی پانی میسر نہیں ہوگا۔ اگر پاکستان میں بڑے ڈیم موجود ہوتے تو سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا اور جو اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اس سے یقینا بچا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں 1970 ء کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں اس وقت گیارہ بڑے ڈیم اور ایران میں 45 ڈیم بن رہے ہیں۔ بڑے آبی ذخائر کی تعمیر صرف سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں کو روکنے ہی کیلئے نہیں بلکہ پانی کے اس بحران سے بچنے کیلئے بھی ضروری ہے جس کی طرف پاکستان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
1947 ء میں قیام پاکستان کے وقت فی کس پانی کی دستیابی پانچ ہزار چھ سو کیوبک میٹر تھی جو اس وقت کم ہوتے ہوتے ایک ہزار کیوبک میٹر فی کس سے بھی نیچے چل گئی ہے۔ بھاشا دیامر ڈیم جیسے بڑے منصوبے کی تعمیر کے بعد بھی فی کس پانی کی دستیابی صرف اس حد تک ہی بہتر ہو سکے گی جو 1970 ء میں تھی اور یہ کہ صرف اس ایک ہی ڈیم پر اکتفا کرنے کی بجائے ملک کی سیاسی قیادت کو اتفاق رائے سے کئی بڑے ڈیم تعمیر کرنا ہونگے تاکہ بروقت منصوبہ بندی سے آئندہ سنگین ممکنہ بحرانوں سے بچا جا سکے۔بدقسمتی سے ماضی میں بڑے ڈیموں کی تعمیر پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنائے جانے کے بعد حکمرانوں میں بڑے ڈیم کی تعمیر کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا۔ کالا باغ ڈیم کے تکنیکی مسئلہ کو سیاسی بنا کر رکھ دیا گیا اور آج اس ڈیم کے سیاسی مخالفین کسی قسم کی دلیل سننے کیلئے آمادہ ہی نظر نہیں آتے اور یوں انتہا پسندانہ روئیے آج ہمیں مستقبل کی ممکنہ پیاس سے بچانے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔حالانکہ اس وقت حالت یہ ہے کہ عالمی تھنک ٹینک جرمن واچ نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 10 سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک میں شمار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ہونے والے شہریوں کی تعداد 27 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
چندسال قبل ہی گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں تھنک ٹینک نے خبردار کردیاتھاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات میں ایک مخصوص تعلق ہے‘ پائیدار ماحولیاتی مستقبل سے متعلق عالمی تحقیقی ادارے ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کے مطابق آئندہ 15 برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والے شہریوں کی تعداد 27 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق پن دھارے یا واٹر شیڈز میں جنگلات کی کٹائی‘ دریاؤں کے کناروں پر زراعت‘ آبادیوں اور دیگر مقاصد کیلئے کی گئی تجاوزات بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی بڑی وجوہات ہیں دوسری طرف پینے کے دستیاب پانی کے حوالہ سے بھی تشویشناک صورت حا ل کاسامناہے ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے لاعلاج مرض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی ہے۔ قومی تحقیقاتی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پینے کا 82 فیصد پانی انسانی صحت کیلئے غیر محفوظ ہے۔
واٹر ریسرچ کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 23بڑے شہروں میں پینے کے پانی میں بیکٹیریا‘ آرسینک‘ مٹی اور فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔ پاکستان میڈیکل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں 90 فیصد بیماریوں کی وجہ پینے کا پانی ہے جس کے باعث سالانہ 11 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے لاعلاج مرض کی وجہ بھی پینے کا آلودہ پانی ہے گویا ایک طرف پانی کی کمی ہے دوسری طرف فاضل پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی سسٹم ہی نہیں اورتیسری طرف پینے کاپانی زہریلا ہوتاجارہاہے ہم نے عملی طورپر اپنا پانی دوسروں کے استعمال کے لیے کھلا چھوڑ دیاہے اسی لیے تو بھارت اپنے علاقوں میں متنازعہ ڈیم بنانے پر کام مزید تیز کرتاجارہاہے اوراسی لیے عالمی عدالت میں ہم اپناکیس ہارتے ہیں کہ ہم میں اپنے حصہ کے پانی کے استعمال یاذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔
اس حالیہ سیلاب کو ہی لے لیں کھربوں روپے کاقیمتی پانی سمندر برد ہوگیا اورسمندر میں جانے سے پہلے یہ پانی ایک تہائی ملک کو ڈبو بھی گیا ہمار ا جنوبی پنجاب اور سندھ ڈوب گئے بھارتی راجستھان میں درجنوں ڈیموں کی بدولت نہ صرف یہ کہ تباہی نہیں ہوئی بلکہ بہت بڑی مقدار میں بارش کاپانی ذخیرہ بھی کرلیاگیاوطن عزیز میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی کمی کی وجہ سے ہرسال اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتاہے ہرحکومت مختصرالمیعاد پالیسیاں اپناتی ہے جس کاخمیازہ ایک عرصہ سے یہ بدقسمت قوم بھگت رہی ہے کم سے کم نکات پر اتفاق رائے پیداکر کے اگر سیاسی جماعتیں اپنے لیے رولز آف گیم وضع کرلیں تو مستقبل میں کچھ عرصہ کے بعد سیلاب اسی طرح ہماری معیشت کوبہا لے جاتارہے گا۔