پہلی بات (آن لائن صارفین کا تحفظ اور حقوق): نائیجریا براعظم افریقہ کا مغربی ملک ہے جو خلیج گنی کے کنارے آباد اور اپنی قدرتی حیات‘ آب و ہوا اور جنگلات کے لئے مشہور ہے۔ عالمی بینک کے مطابق سال 2020ء کے اختتام پر نائیجریا کی آبادی قریب بیس کروڑ سے زیادہ جبکہ مجموعی خام قومی پیداوار 432 ارب ڈالر سے زیادہ رہی۔ نائیجریا اور پاکستان کی آبادی اور قومی آمدنی قریب قریب ایک جیسی ہی ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق سال 2020ء کے اختتام پر پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ اور سالانہ خام قومی پیداوار 263.7 ارب ڈالر تھی لیکن آبادی اور آمدنی میں قدرے مماثلت کے باوجود پاکستان کے لئے نائجیریا کی مثال میں چند اسباق موجود ہیں اور بالخصوص انٹرنیٹ کے حوالے سے نائجیریا حکومت کے اقدامات و حکمت ِعملی کا پاکستانی فیصلہ سازوں کو مطالعہ کرنا چاہئے۔ جون 2022ء کے وسط میں جاری کئے گئے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نائجیریا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد ’8 کروڑ 40 لاکھ‘ سے زیادہ تھی جبکہ فروری 2022ء میں عالمی تنظیم (ڈیٹا ریپورٹل) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ’8 کروڑ 29 لاکھ سے زیادہ ہے۔
اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم انٹرنیٹ یا اِنٹرنیٹ سے جڑی حکومتی حکمت عملیوں کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم پاکستان کی ”ساڑھے چھتیس فیصد“ آبادی کے ’آن لائن حقوق‘ بشمول کوائف کے تحفظ (ڈیٹا پرائیوسی) اور اُنہیں لاحق خطرات کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں۔دوسری بات (قانونی جنگ): نائیجیریا حکومت نے سوشل میڈیا وسائل کے ذریعے عوام تک رسائی رکھنے والی معروف ’ٹیک کمپنیوں‘ کے ساتھ قانونی جنگ شروع کر رکھی ہے اور عالمی کمپنیوں کو یاد دلایا ہے کہ وہ نائجیریا کے قوانین و قواعد اور حاصل ’مشروط اجازت‘ پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی پابند ہیں۔ اِس سلسلے میں نائجیریا حکومت نے ’میٹا‘ کے خلاف مقدمہ دارالحکومت ’ابوجا‘ کی وفاقی ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’میٹا‘ نامی امریکی کمپنی ’فیس بک‘ اور دیگر کئی سوشل میڈیا و دیگر وسائل بشمول اُوکیولیس‘ گیفی‘ میپلری‘ کسٹومر‘ پریسائز کی مالک ہے اور سال 2021ء کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق اِس کمپنی نے اپنی کل آمدنی کا 97 فیصد سے زائد اشتہارات سے کمایا تھا تو معلوم ہوا ہے انٹرنیٹ کے ذریعے سماجی رابطہ کاری جیسی سہولت فراہم کرنے والے ادارے درحقیقت ’اِشتہارات‘ کے سہارے کھڑے ہیں‘ جو ہر سال اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے اپنی آئینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو پائمال کرتے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ دستیاب تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق سال 2021ء میں ’میٹا‘ کی کل آمدنی 117 ارب ڈالر سے زیادہ تھی اور یہ آمدنی چونکہ صرف ایک سوشل میڈیا ادارے کی ہے اِس لئے تصور کیا جا سکتا ہے کہ دیگر ادارے کس طرح اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہوں گے اور اُن کی آمدنی کیا ہوگی جبکہ عموماً آمدن ظاہر کرنے میں کمپنیوں کے اثاثوں اور خدمات میں کی گئی توسیع کا شمار نہیں کیا جاتا۔ نائجیریا حکومت نے ’فیس بک‘ پر نشر ہونے والے ایسے اشتہارات پر اعتراض کیا ہے جو قومی تشہیری حکمت عملی کے خلاف ہیں اور اشتہارات کی غیر قانونی نمائش کو بنیاد بنا کر ’میٹا‘ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔تیسری بات (بنیادی سوال): ’ایڈورٹائزنگ ریگولیٹری کونسل آف نائیجیریا نے ’میٹا‘ اور اس کے مقامی ایجنٹ اے ٹی تھری ریسورسز لمیٹڈ کے خلاف فیس بک اور انسٹاگرام پلیٹ فارمز کے ذریعے ملک کے رہائشیوں کو غیر منظور شدہ شدہ اشتہارات دکھانے پر مقدمہ دائر کیا اور مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نائیجیریا کی مارکیٹ میں غیر منظورشدہ اشتہارات کی ’نشر و اشاعت‘ کرنے سے حکومت کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے اور اِس نقصان کے ازالے کے لئے 30 ارب نائیرا تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو 6 کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی رقم ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستانی روپوں میں یہ تاوان قریب 16 ارب روپے بنتا ہے۔
نائجیرین کرنسی (نائیرا) کی قدر 0.52 پاکستانی روپے کے مساوی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ”کیا فیس بک اور انسٹاگرام آن لائن پلیٹ فارم نہیں ہیں؟“ سوشل میڈیا ادارے اِس سوال کا جواب اپنے کاروباری مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر ’آن لائن‘ یا ’آف لائن‘ ادارے کو اشتہارات سے متعلق کسی بھی ملک کے قواعد و ضوابط اور شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ اِس نکتہئ نظر سے اگر پاکستان میں صرف ’میٹا‘ ہی کی تشہیری حکمت عملی کو دیکھا جائے تو یہ پاکستان کے قواعدوضوابط کے منافی ہیں۔لیکن ہر روز ہونے والی اِس بے قاعدگی کے بارے میں پاکستان کے متعلقہ ادارے خاموش ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کم سے کم نائجیریا ہی کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے ’اخلاقی انتشار‘ پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ انٹرنیٹ بلاشبہ ایک مفید ذریعہ ہے معلومات کا تاہم اس سے استفادہ کرنا تب ہی ممکن ہے جب یہ ملکی روایات اور قواعدو ضوابط کی روشنی میں ہو اور یہاں پر ایسا مواد موجود ہو جو ذہنوں میں انتشار پیدا کرے تو بجائے فائدے کے انٹرنیٹ کسی بھی معاشرے کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔