چترال کی تمام سیاسی جماعتوں کی ضلعی قیادت نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو طویل اور ناروا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کیلئے ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مقررہ مدت کے اندر لوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں کی گئی تو تمام پارٹیوں کے قائدین اور کارکن منتخب رکن صوبائی اسمبلی کی قیادت میں گولین گول اور ریشن بجلی گھر کے ڈیم سے پانی کی ترسیل روک دینگے۔ ضلع اپر اور لوئر چترال سے تعلق رکھنے والے سیا سی رہنماؤں نے قومی کاز کیلئے ایکا کرلیا‘ پیڈو، شائیڈو اور واپڈا کے درمیان رقم کے لین دین کا تنازعہ ہے اور اسکی سزاطویل لوڈ شیڈنگ کی صورت میں عوام کو دی جارہی ہے‘صرف چار گھنٹے کیلئے بجلی آتی ہے‘ گولین گول پاور ہاؤس سے 108 میگا واٹ اور ریشن پاور ہاؤس سے 2.5 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے‘ چترال کے دونوں اضلاع کی مجموعی طلب تیس میگاواٹ سے بھی کم ہے‘ ان بجلی گھروں کی تعمیر کے وقت عوامی نمائندوں اور متعلقہ محکموں کے حکام نے عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ چترال کی ضرورت پوری ہونے کے بعد بچ جانیوالی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائیگی۔ لیکن دونوں پاور ہاؤسز سے بجلی کی پیداوار شروع ہونے کے بعد حکام اپنے وعدے بھول گئے اورعوام کو طویل لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں جھونک دیا۔قومی اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کیمطابق چترال کے مختلف مقامات پر پانچ سے دس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے گولین گول اور ریشن پاور ہاؤس سے بجلی کی ترسیل جاری ہے۔ جبکہ دروش کے قریب لاوی کے مقام پر بجلی گھر کی تعمیر کا کام بھی شروع کیاگیا ہے‘ پریت کے مقام پر بھی بڑے بجلی گھر کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیا گیا ہے۔ ایون، کوغذی، برنس، پرپش، شوگرام، بونی، سنوغر، لاسپور، بریپ، یارخون اور تورکہو کے علاوہ گرم چشمہ کے ایک سے زائد مقامات پر بجلی گھر بناکر توانائی کی قومی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے‘ آئین کے تحت جس علاقے میں بجلی اور گیس پیدا ہوتی ہے یا تیل نکلتا ہے‘سب سے پہلے وہاں کے لوگوں کا اس پر حق ہے‘خیبر پختونخوا کے اکثر پہاڑی علاقے معدنیات سے بھرے پڑے ہیں‘ حکومتی سطح پر ان قیمتی پتھروں اور دھاتوں کا نکالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے؛چترال میں سونے، تانبے، اینٹی منی،جپسم، شیلائیٹ، سنگ مرمر، زمرد اور دیگر قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر انہیں نکالنے کا ٹھیکہ چند لاکھ کی فیس لے کر پرائیویٹ کمپنیوں کو دیا جاتا ہے۔ مقامی آبادی کو اس میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملتی‘مقامی ضرورت سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا ہونے کے باوجود چترال کے عوام روشنی کو ترس رہے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے مالی مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے کے بجائے عوام پر بجلی گرارہی ہیں۔ پیمانہ صبر جب لبریز ہوجائے تو لوگ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں‘ جس پر بروقت نوٹس لیکر مسئلہ حل کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو سہولت ہو اور امن وامان کا مسئلہ بھی نہ بنے۔