انٹرنیٹ خطرات: قواعد و ضوابط

پہلا نکتہ: یوٹیوب (YouTube) کا شمار دنیا کی چند ’انتہائی کامیاب‘ ویب سائٹس میں ہوتا ہے جو اشتہارات (تشہری مواد کی نشر و اشاعت) سے سالانہ ساڑھے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ آمدنی رکھتا ہے لیکن ’یوٹیوب‘ کی اِس آمدنی کو چند خطرات بھی لاحق ہیں اُور یہ خطرات ایسے مواد کی تشہیر سے ہیں جن کی عالمی سطح پر تشہیر (نشرواشاعت) پر پابندیاں عائد ہیں لیکن یہ کسی نہ کسی صورت ’یوٹیوب‘ کے ذریعے انٹرنیٹ صارفین تک پہنچنے کی راہ تلاش کر لیتے ہیں۔ یوٹیوب کے لئے دوسرا خطرہ اُور مشکل (چیلنج) ایسے مواد کی تشہیر کو روکنا ہے جس پر کوئی شخص یا ادارہ اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے۔ عالمی سطح پر ایسے مواد کو ’copy-right‘ کے عنوان سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ ’یوٹیوب‘ کو لاحق تیسرا خطرہ ایسے مواد کی تشہیر (نشرواشاعت) سے ہے جو غلط معلومات اُور مواد پر مشتمل ہوتا ہے۔ غیرمعیاری اُور غیرمصدقہ مواد کی تشہیر روکنا ایک ایسا درد سر ہے جس سے نمٹنے کے لئے یوٹیوب کو اپنی کڑی نگرانی پر بار بار نظرثانی کرنی پڑتی ہے اُور یہ ادارہ جاتی اخراجات کے لحاظ سے یہ ایک مہنگا اُور تھکا دینے والا عمل ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ صارفین سے جس سنجیدگی اُور ذمہ داری کی توقع رکھی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے صرف ’یوٹیوب‘ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے جملہ وسائل حتیٰ کہ ’اِی میل‘ اُور موبائل فون کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کا بھی غلط استعمال عام ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’ڈیٹا ری پورٹل (datareportal)‘ نامی ویب سائٹ کے جاری کردہ اعدادوشمار (جولائی 2022ء) کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ صارفین کی کل تعداد 5.03 ارب ہے یعنی دنیا کی کل آبادی کا ’63.1 فیصد‘ حصہ انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے اُور اِس تعداد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔دوسرا نکتہ: ’یوٹیوب‘ یا کسی بھی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے آمدن حاصل کرنے (منیٹائزیشن) کے لئے ضروری نکات میں جہاں مطلوبہ پلیٹ فارم کے قواعد و ضوابط کو سمجھنا ضروری ہے جیسا کہ یوٹیوب چاہتی ہے کہ کسی چینل کے کم سے کم 1 ہزار سبسکرائبرز (صارفین) ہوں اُور اُس چینل پر دیا گیا مواد ایک سال کے دوران کم سے کم 4 ہزار گھنٹے دیکھا گیا ہو۔ یہ بہت ہی سیدھی سادی شرائط ہیں اُور اگر کوئی صارف اِس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ یوٹیوب کی منیٹائزیشن کے معیار پر پورا اُترتا ہے تو اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ وہ صارف فوری طور پر ’یوٹیوب‘ سے پیسہ کمانا شروع کر دے گا جبکہ ’من کی مراد (یوٹیوب سے کمائی حاصل کرنے کے لئے) اُسے ضرورت رہے گی کہ وہ وقتاً فوقتاً بدلنے والے قواعد اُور ’یوٹیوب‘ دیکھنے والوں کے رجحانات (پسندیدگی) پر نظر رکھے۔ سوشل میڈیا سے کمائی کے لئے سب سے پہلا کام اپنے لئے ناظرین کا انتخاب کرنا ہوگا کہ آپ کس ذہنیت یا کن موضوعات میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ویڈیوز بنانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت ’ٹارگٹ آڈینس‘ معلوم کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ موضوعات کے انتخاب میں اپنی پسند و ناپسند کے بارے میں واضح مؤقف رکھتے ہیں اُور کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں سے زیادہ آپ کی اپنے بارے میں معلومات جامع ہونی چاہیئں۔ ’یوٹیوب‘ پر اشتہارات آپ کی چینل کی آمدنی کا ذریعہ ہوتے ہیں اُور چونکہ اُن اشتہارات کا اپنا ایک خاص حلقہ ہوتا ہے جسے سمجھنا آپ کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافے کا باعث بنے گا اُور اگر آپ اپنی پوسٹنگز (مواد) علاقائی ترجیحات کے مطابق رکھیں گے تو زیادہ اشتہارات ملنے کی توقع رہے گی۔ دوسری اہم بات ویڈیو کے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔ یہاں جس معیار کی بات ہو رہی ہے وہ ادارتی مندرجات اُور آڈیو ویڈیو کوالٹی سے متعلق ہیں۔ پروڈکشن شروع کرنے سے پہلے معیارات مقرر کریں اُور اُن معیارات پر سختی سے عمل درآمد کریں۔ تیسری اہم بات آپ کے تخلیق کردہ مواد پر تبصروں (پسند و ناپسند‘ تنقید یا آرأ پر مبنی مشوروں) کو اہمیت دیں۔ اگر آپ اپنے آن لائن ناظرین و سامعین کی ضرورت کو سمجھ گئے تو پروڈکشن کامیاب بنانے کے لئے باقی ماندہ کام آسان ہو جائے گا۔ چوتھی اہم بات ’یوٹیوب چینل‘ کو کسی ایک موضوع یا ایک جیسے موضوعات کا مرکز نہ بنائیں بلکہ اِسے متنوع بنائیں اُور بیک وقت ایک سے زیادہ یعنی دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (بلاگز‘ انسٹاگرام‘ ٹوئیٹر وغیرہ) کا بھی استعمال کریں۔ پانچویں اہم بات اُن صارفین (ناظرین و سامعین) سے بات چیت (تبادلہئ خیال) ہے‘ جو آپ کے تخلیق کردہ مواد کو دیکھ رہے ہیں اُور اگر وہ آپ کی کسی رائے سے اختلاف کرتے ہیں تو اُن کے اختلاف کو سمجھنا اُور اُس کا جواب دینا بھی خود پر لازم کر لیں اُور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اپنی تخلیقات کے ایک سے زیادہ دورانیئے کے ٹکڑے بنائیں اُور اُن کی تشہیر کریں جس کے لئے ’سرچ انجن آپٹیمائزیشن (SEO)‘ نامی حکمت عملی کی مدد بھی لی جا سکتی ہے اُور اکثر دیکھا گیا ہے کہ انفرادی حیثیت میں ’آن لائن‘ کام کرنے والوں کو اِس کا فائدہ ہوتا ہے۔تیسرا نکتہ: 10 ستمبر 2022ء کے روز ’پاکستان  ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (PTA)‘ کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@PTAofficialpk) سے ایک پیغام جاری ہوا جس میں انٹرنیٹ کے انفرادی یا ادارہ جاتی گروہی صارفین (اداروں اُور تنظیموں) کو آگاہ کیا گیا کہ اگر وہ (کسی بھی ضرورت کے تحت) ’ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (VPN)‘ نامی سافٹ وئرز کا اِستعمال کر رہے ہیں تو وہ ”31 اکتوبر 2022ء“ تک اپنے ’وی پی این‘ رجسٹرڈ کروا لیں۔VPN کیا ہوتا ہے؟ اِس سے استفادہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اُور کیا اِس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کامیاب ہوگی؟ ایسے بہت سے سُوالات کا جواب کسی الگ عنوان کے تحت وضاحت سے دیا جائے گا اِس مرحلہئ فکر پر صرف یہی سمجھنا کافی ہوگا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال 2 بنیادی ضرورتوں کے تحت کیا جاتا ہے۔ پہلی مہم یعنی انتہائی اہم ضرورت ’آن لائن سیکورٹی‘ ہے جبکہ دوسری ضرورت کا تعلق عموماً ایسی ویب سائٹس یا آڈیو ویڈیو مواد‘ تحریروں (ٹیکسٹ) کی وصولی یا تقسیم ہوتی ہے جس پر حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ ایسی ’ویب سائٹس‘ میں پاکستان کی ریاست اُور سیاست کے خلاف غلط بیانی اُور پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت پر مبنی مواد شامل ہوتا ہے بالخصوص ملک دشمن قومی وحدت اُور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں قومی سلامتی کے اداروں کا کردار عام آدمی (ہم عوام) کی نظروں میں مشکوک بناتے ہیں تو ایسے نفرت انگیز مواد کی تشہیر روک دی جاتی ہے اُور اُس تک رسائی صرف ’vpn‘ ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کے بارے میں حکومتی منتظم ادارے ’پی ٹی اے‘ کی حکمت عملی (تدبیر و تدبر) جامع نہیں ہے اُور اِنٹرنیٹ سے متعلق قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے کاروباری مفادات کو زیادہ جبکہ شہریوں (صارفین) کے بنیادی حقوق کا نسبتاً کم خیال رکھا جاتا ہے بلکہ بسا اُوقات شہریوں کے حقوق مکمل طور پر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ ایک ایسا سکہ نہیں جس کے صرف 2 ہی رخ ہوں۔ ایک قومی سلامتی (سیکورٹی) اُور دوسرا کاروباری فائدہ (بزنس) بلکہ اِس کثیرالجہتی اسلوب سے اظہار رائے کی آزادی بھی جڑی ہوئی ہے‘ ایک ایسی آزادی جس کے بغیر ’جمہوریت کا تصور‘ ادھورا رہتا ہے۔