کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے 

کزشتہ دو دن سے پشاور کے حصے کے آسمان پر بادل یہاں وہاں چھینٹے اڑاتے پھر رہے ہیں اسوج کی دھوپ سے پریشاں چہروں کے تناؤ میں بہت حد تک کمی واقع ہو چکی ہے، لکھنے پڑھنے کے جن کاموں میں موسم کی شدت کی وجہ سے جی نہیں لگتا تھا اب کچھ کچھ طبیعت آمادہ ہو رہی ہے  اور دو ڈھائی ہفتوں میں موسم خوشگوار ہو جائے گا، یہ آغاز ِ زمستان ہو گا اور میرے خیال میں تخلیقی کاموں کے لئے یہ بہترین رت ہو تی ہے، مان لینا چاہئے کہ اندر کے موسم ہمیشہ باہر کے موسم کی طرف ہی دیکھتے ہیں، اب ہم ایک مختلف دور میں سانس لیتے ہیں ہمارے سارے موسم مصنوعی انتظامات سے مشروط ہو چکے ہیں، جب چاہیں اپنا کمرہ یا گھر گرم کر لیں جب چاہیں ٹھنڈا کر لیں یا پھر خوشگوار بنا لیں، یہ تو بھلا ہو برقی رو کی بے ترتیبی اور وقت بے وقت تعطل کے‘کہ برقی آلات اب ہمیں ہمارے مرضی اور منشا کے مطابق سہولت مہیا نہیں کرتے، کیونکہ ہمارے ہاں کی نازک مزاج برقی رو کچھ دیر تک تو بحال رہتی ہے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد تھک ہار کر سستانے کے لئے کہیں چلی جاتی ہے، پہلے تو کم کم جاتی تھی اور گھنٹہ پھر بعد لوٹ آتی تھی اب کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو گئی ہے اس لئے جب بھی جاتی ہے واپس آنا بھول جاتی ہے‘جانتی ہے کہ کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں، خیر یہ مسئلہ ہمارا تو ہے ہی نہیں،کیونکہ ہم حافظ شیرازی کی طرح ”گدائے گوشہ نشیں“ ہیں اور ’رموز مملکت ِ خویش خسرواں دانند“ ویسے بھی سچ یہی ہے کہ صحت کی قدر بیماری میں معلوم ہو تی ہے، زندگی کو جو چیز بے کیف بناتی ہے وہ اس کی یکسانیت ہے اس لئے طبیعت میں نکھار اس یکسانیت کے ٹوٹنے سے آتا ہے، فطرت نے بھی کائنات کی اس بے کیفی کو ختم کرنے کے لئے مختلف موسم اور شب روز کے مختلف پہر بھیجے ہیں، لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ’اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے“ اسی طرح کچھ پانے کا سارا لطف سارا مزہ اسی کو ملتا ہے جو کچھ کھو چکا ہو، کچھ کھوئے بغیر کوئی بھی کچھ پانے کی لذت سے آشنا نہیں ہو سکتا، بلکہ نظیری نے اس بات کو بہت ہی پر لطف طریقہ سے بیان کیا ہے۔
 آں کہ اْو در کلبہ ئ احزاں پسر گم کردہ یافت
 تو کہ چیزی گم نہ کر دی از کجا پیدا شود
(حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے رنج و غم خانہ میں گریہ و زاری سے کھویا ہوا بیٹا پا لیا۔لیکن تو نے جب کچھ شے کھوئی ہی نہیں تو تجھے کہاں سے وہ شے ملے گی) یہ کھونا اور پانا دھوپ اور چھاؤں کی طرح ہے جس سے زندگی عبارت ہے،شاید اس لئے کہا جاتا ہے کہ جستجو اور تلاش کے بغیر علم کا حصول بھی نا ممکن ہے، جب سے کائنات وجود میں آئی ہے انسانی ذہن نت نئی چیزوں کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ معلوم تاریخ کے مطابق ہم غاروں سے نکل کر بستیوں تک آئے اور زندگی میں دریافت کا سفر شامل کر کے نئے افق حاصل کئے، اس کائنات میں انسان کی جستجو کی جھلک ابھی تک روز اول کی طرح ہے اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ کائنات کی وسعتیں جتنی بھی تلاش کر لی جائیں اس سے کئی گنا زیادہ اپنی طرف بلانے لگتی ہیں شاید اسی لئے علامہ اقبا ل نے کہا ہے۔
 یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
 کہ آ رہی ہے دما د م صدائے کن فیکون
کھونا اور پانا بہر حال ہماری زندگی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے، لیکن کھوئی ہوئی چیزیں کبھی کبھی تو واقعی مل جاتی ہیں لیکن بسا اوقات ان کی تلاش میں زندگی بھر ہلکان ہو نا پڑتا ہے، میں نے اپنے شعری مجموعہ میں بھی اپنی بات میں اس حوالے سے لکھا ہے،، کہ ’میں نے کہا ناکہ لمحے ہوں، چہرے ہوں یا محبتیں، مجھے اُنہیں سنبھالنے کا قطعاً سلیقہ نہیں ہے اور میں بہت سی اچھی چیزوں کو گنوا دیتا ہوں‘ جانے انجانے میں کیا کچھ میں کھو بیٹھا ہوں میرے جیسے مبتلا شخص کو تو ہاتھوں سے باندھی ہوئی اس گٹھڑی کودانتوں سے کھولنے کا ہنر بھی نہیں آتا“ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ پانے کا اپنا ایک لطف ضرور ہو تا ہے مگر شاید کھوجنا اور تلاش کرنا زیادہ پر لطف تجربہ ہے، جس طرح بڑے شہروں میں ایک شعبہ ”لاسٹ اینڈ فاؤنڈ“ کا ہوتا ہے، جہاں بیشتر اوقات کھوئی ہو ئی چیزیں مل جاتی ہیں، جس کا مجھے ذاتی تجربہ بھی ہے جب کوئی آٹھ برس پہلے جب میں واشنگٹن سے ڈینور
 کی طرف جانے کے لئے جہاز میں بیٹھ گیا اور جب جہاز ٹیک کرنے لگا تو میں نے حسب معمول اس منظر کو اپنے کیمرہ میں محفوظ کرنے کے لئے بیگ میں دیکھا تو کیمرہ نہیں تھا،میں نے ابتسام اور رفعت علی سید سے پوچھا مگر انہوں نے یاد دلایا کہ کافی پیتے وقت آپ نے پکچرز لی تھیں،مجھے یاد آیا کہ اپنا قیمتی کیمرہ وہیں بھول آیا، زیادہ افسوس ان تصاویر کا بھی تھا جو پشاور سے دبئی اور وہاں سے واشنگٹن تک میں بناتا رہا تھا۔ عجب افسوس اور بے کیفی کا شکار رہا‘ڈینور رات گئے پہنچا۔ دوسرے دن ناشتہ کے وقت میں نے افراز سے اس حادثہ کا کہا مگر وہ ذرا بھی پریشان نہ ہوا اور فوراً واشنگٹن ائر پورٹ فون کیا۔کچھ دیر بات کی، پھر کیمرہ کی تفصیل پوچھ کر ان کو ای میل کر دی ہمارے ناشتہ کرتے کرتے ہی ادھر سے ای میل آ گئی کہ جی آپ کا کیمرہ ہمارے پاس ہے آپ کسی کو بھیجیں گے یا ہم کو رئیرکے ذریعے بھیج دیں، ساتھ ہی کچھ کوریئرزکے فون نمبر تھے، افراز نے ایک سے  بات کی اور دوسرے ہی دن سہ پہر کو کیمرہ مل گیا۔ ہمارے ہاں بھی یقینا یہ شعبہ ہے مگر نہ ہمیں اس کے بارے میں معلوم ہے اور نہ وہ بتاتے ہیں، میں نے ستر کی دہائی میں اس کے بارے میں سنا تھا ان دنوں میں کٹرہ مسجد مہابت خان میں کمرہ نمبر پچیس میں رہتا تھا کمرہ نمبر ستائیس میں جو دو لوگ رہتے تھے ان میں ایک ’فضل محمد‘ ٖ نظامت اطلاعات میں تھا اور دوسرا میر اویس تھا جو جی ٹی ایس (اب مرحوم) میں تھا اور ”لاسٹ اینڈ فاؤنڈ“ کے شعبہ میں تھا۔ میں نے اسے کہا یہ نام تو کبھی سنا نہیں؟ پشتو میں کہنے لگے ”مونگہ چا تہ وایو خو نہ“ (ہم کسی کو بتاتے تھوڑی ہیں) گویا تب تھا تو اب بھی ہو گا۔ مگر تب سے اب تک میں نے بھی یہ نام سنا نہیں گویا ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے“ ایسے ہی سوچتا ہوں کہ ٹر مینلز اور ائیر پورٹس پر کھوئی ہوئی چیزوں کے لئے تو ایک شعبہ ہے جہاں بیشتر اشیاء واپس مل جاتی ہیں مگر زندگی کے میلے میں ہم جو ”چہرے، خواب اور لمحے“ اپنی بے احتیاطی یا لا ابالی طبیعت کی وجہ سے کھو بیٹھے ہیں کاش ان کا کھوج مل جائے یا ان کو پانے کا بھی کوئی ٹھکانہ مل جاتا۔ یہ کھو نا پانا بھی عجب ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ جاوید اختر کی الجھن بھی شاید یہی ہے
 کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے 
 مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی