’آن لائن‘ خطرات

اسلام مکمل ضابطہئ حیات ہے‘ بعدازتحقیق و تجربات اِس کے رہنما اصول ’انسانیت کیلئے مفید‘ قرار دیئے گئے ہیں جن میں ’حیا‘ کو اِس حد تک بنیادی اہمیت دی گئی ہے کو اِسے ایمان کا جز کہا گیا ہے‘فحاشی و بے حیائی  کی ہر شکل و صورت میں سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اِن سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے اِس تمہید اور تعارف کو ذہن میں رکھتے ہوئے کسی بھی عہد (دور) اور کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے لئے چند رہنما اصول ’پاک و پاکیزہ‘ معاشرے کی بنیاد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں‘اسلام ’ٹیکنالوجی‘ سے گریز نہیں سکھاتا لیکن اِس کی حدودوقیود کا تعین کرتا ہے‘ ٹیکنالوجی جس انداز سے ہمارے روزوشب کا حصہ بن کر مسلسل دراندازی کر رہی ہے تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی ایک شعبہ یا کوئی ایک بھی کام ایسا نہیں رہے گا‘ جس میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل نہ ہو‘ اگر موجودہ صورت ِحالات کی بات کی جائے تو پاکستان میں 8 کروڑ 30 لاکھ (تراسی ملین) انٹرنیٹ صارفین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے‘ جن کے لئے اگر رہنمائی کا خاطرخواہ انتظام‘ شعور‘ آگاہی‘ خواندگی یا معلومات کا بندوبست نہ کیا گیا تو انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعے تشہیر پانے والا ’آن لائن مواد نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور یہ سماجی و غیر اخلاقی مسائل‘ پیچیدگیوں‘ الجھنوں اور نفسیاتی و جسمانی عارضوں کے علاؤہ جرائم میں ملوث کرنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ اکا دکا جرائم کے واقعات اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے غیرمحتاط اور حد سے زیادہ  استعمال کی وجہ سے جرائم و خرابیوں کا ظہور ہوا‘توجہ طلب ہے کہ انٹرنیٹ پر بیشتر سرگرمیوں کا آغاز  عموماً غیر اخلاقی آن لائن مواد کی تلاش سے شروع ہوتا ہے‘ بہت کم انٹرنیٹ صارفین یہ بات جانتے ہیں کہ اُن کی کسی ’وقتی تحقیق یا جستجو (سرچ) کے دائمی اثرات کیا ہوں گے ’آن لائن‘ رہتے ہوئے کسی غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمی کی حمایت بھی جرم میں برابر ملوث تصور کی جاتی ہے؛ غیراخلاقی مواد کی جانب عمومی رغبت سے گھناؤنے سائبر جرائم تک پھیلے سلسلے بظاہر اِس قدر خوشنما ہیں کہ ایک مرتبہ اِن کے دام میں آنے (گرفتاری) کے بعد رہائی بآسانی ممکن نہیں رہتی‘ قومی فیصلہ سازی اور سماجی اصلاحات کرنے والوں کو اِس بارے توجہ دینی چاہئے کہ بنا رہنمائی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور اِن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے؛ اگر اس رجحان (جاری عمل) پر قابو نہ پایا گیا تو معاشرتی سطح پر اس کے تباہ کن اثرات (خدانخواستہ) بڑے پیمانے پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں‘ تکنیکی طور پر‘ کسی بھی صارف بالخصوص نوجوانوں اور بچوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ’سوشل میڈیا استعمال‘ سے روکا نہیں جا سکتا تاہم اُن کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر اور اِس سے متعلق خطرات کو رہنمائی سے کم کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا بھی چاہئے؛آن لائن خطرات عمر‘ جنس اور ملک کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں‘ اِس خطرے کو کم کرنے کے لئے سب سے پہلی ذمہ داری ”گھر“ سے شروع ہوتی ہے جس میں والدین کو ’آن لائن خطرات‘ کے بارے میں بچوں سے بات چیت کرنی چاہئے تاکہ وہ سائبر غنڈہ گردی (جرائم کی حمایت و تائید یا اِس کے ارتکاب) سے محفوظ رہیں‘ یہ ہدف اُسی صورت حاصل ہو سکتا ہے جب نوجوانوں کو پاکستان کے موجودہ انٹرنیٹ قوانین کے بارے میں آگاہ کیا جائے اُنہیں ”الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء“ کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کس طرح آن لائن جرائم کی روک تھام کے لئے وضع کیا گیا ہے اِسی قانون کے تحت حکومتی اداروں کو یہ ’آئینی اختیار‘ بھی حاصل ہے کہ وہ آن لائن موجود غیر اخلاقی مواد تک رسائی ختم کریں یا اگر وہ کسی اندرون ملک ذریعے (صارف) سے جاری (شائع یا نشر) کیا گیا ہے تو اُسے ہٹایا (ڈیلیٹ) کر دیا جائے ’آن لائن خطرات‘ کم کرنے کے لئے چند رہنما اصولوں کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ بچوں کو توجہ دی جائے‘ اُن کی سرگرمیوں‘ معمولات اور دوستوں سے برتاؤ میں کسی تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے اُسے نظرانداز نہ کیا جائے کیونکہ کوئی چھوٹی سی بات اُن کے مزاج (پسندوناپسند) میں کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے‘ بچوں سے برتاؤ دوستانہ رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تبادلہئ خیال میں ججھک محسوس نہیں کرتے اور ایسی صورت میں انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر درپیش کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کی صورت میں وہ سب سے پہلے والدین کو آگاہ کریں گے۔ بچوں کے ساتھ ممکنہ ’آن لائن خطرات‘ کو باتوں باتوں میں زیربحث لانا چاہئے بالخصوص ’آن لائن خطرات‘ سے کس طرح محفوظ رہنا ممکن ہے وغیرہ۔ اِس سلسلے میں آن لائن اجنبیوں کے ساتھ بات چیت نہ کرنا‘ ذاتی معلومات ظاہر یا فراہم نہ کرنا‘ کسی اجنبی کو دوستوں یا اہل خاندان کے گروپ میں شامل نہ کرنا اور کسی اجنبی کی پیروی نہ کرنے جیسی ہدایات (احتیاطی تدابیر) تفصیلاً بمعہ مثالیں اُن کے سامنے رکھی جا سکتی ہیں۔ بچوں کو ہمیشہ اُن کی عمر کی ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی آلات دینے چاہیئں۔ ایسے تھرڈ پارٹی اور آلات کے ساتھ فراہم کردہ سافٹ وئرز ملتے ہیں جن کی مدد سے والدین یا سرپرست ’ٹیکنالوجی آلات‘ کے استعمال پر نظر رکھ سکتے ہیں‘ اصطلاحی طور پر اِسے ”پیرنٹل کنٹرول“ کہا جا تاہے ”پیرنٹل کنٹرول“ سافٹ وئیرز کی فہرست ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (PTA)‘ کی ویب سائٹ (pta.gov.pk) پر بھی دستیاب ہے‘ جو کتابی (پی ڈی ایف فارمیٹ) میں بلاقیمت (مفت) حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔ بچوں کے زیراستعمال کمپیوٹر آلات اور موبائل فونز استعمال کرنے کی اجازت اُس صورت میں دی جائے جبکہ وہ گھر کے کسی کونے میں نہ بیٹھیں بلکہ سب سے سامنے موجود ہوں اور آتے جاتے اُن پر نظر رکھی جا سکے‘تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ’پرتشدد گیمز‘ کھیلنے والے بچوں کی شخصیت اور صحت (دونوں) پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچے عموماً اُنہی کاموں کی نقل (کاپی) کر رہے ہوتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں لہٰذا اگر کسی بچے کا رویہ جارحانہ محسوس ہو تو اُس کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ کا جائزہ (اِحتساب) کرنا چاہئے۔ مزید برآں ’آن لائن‘ ممنوعہ مواد کی اطلاع‘ متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ’پی ٹی اے‘ کو دی جا سکتی ہے اور دی جانی چاہئے۔