جب بھی آٹھ اکتوبرکا دن آتاہے تو بالاکوٹ کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں ٹھیک سترہ برس قبل آج ہی کے دن اہل بالاکو ٹ کو قیامت صغریٰ کاسامناکرناپڑاتھا چشم زدن میں زلزلے کے خوفناک جھٹکوں نے اس تاریخی قصبہ کو اجاڑ کررکھ دیا اس روزتو گویا قیامت کامنظر تھا زلزلے کے جھٹکے تھمے توپتہ چلاکہ پورا بالاکوٹ ہی نیست ونابود ہوچکاہے چندلمحے جہاں زندگی کی رونق پورے عروج پرتھی اب وہاں موت کارقص جاری تھا گھر دکانیں سکول مساجد سب زلزلے کی زد میں آچکے تھے ہر گھر سے سسکیاں آرہی تھیں کچھ تو زلزلے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور جو باقی رہ گئے تھے وہ اپنے پیاروں کی تلاش میں دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگ رہے تھے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پہلے کہاں کارخ کرے گھر جائے کہ وہاں موجود بچوں اورخواتین کو بچاسکے یاپھرسکول کارخ کرے کہ ا ن بچوں کاحال معلوم کرے جوابھی ابھی تیار ہوکر گھروں سے پہنچے تھے یاپھربازار جاکر اپنے پیاروں کو تلاش کرے جو تلاش رزق میں ابھی تو گھروں سے نکلے تھے ایک افراتفری مچی ہوئی تھی کسی کے پاس دوسرے کے لئے وقت نہیں تھا غالباً بالاکوٹ میں 1826ء کے بعدایک بارپھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی یہی قصبہ تحریک مجاہدین کا سکھوں کے خلاف آخری مورچہ تھا یہیں پر سیداحمد شہیداورشاہ اسماعیل شہید نے گردن جھکانے کے بجائے سرکٹانے کو ترجیح دی اس روز بھی پورے بالاکوٹ میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس کے بعد اکتوبر 2005ء میں ہر گھر میں آہ و بکا بپا تھی حالت یہ تھی کہ پیاروں کو دفنانے کے لئے کسی کے پا س کچھ بھی نہیں تھا جیسے تیسے کرکے کرب کی گھڑیاں بیت گئیں اہل بالاکوٹ نے مثالی عزم وحوصلے کے ساتھ ان لمحات کامقابلہ کیا قوم نے ان کابھرپور ساتھ دیا حکومت نے کئی وعدے کئے بکریال کے مقام پر نیو بالاکوٹ سٹی بسانے کی آس دلائی گئی کیونکہ موجودہ بالاکوٹ زلزلے کی زد میں دوبارہ کسی بھی وقت آسکتاہے مگر سترہ برس گذر گئے اس دوران کئی حکومتیں تبدیل ہوگئیں منتخب اراکین بھی آکر رخصت ہوتے گئے مگر بکریال کے مقام پر نئے شہر کاخواب تاحال تشنہ ہے بکریال جائیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہرحکومت اور ا دارہ اس غفلت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر گویا دامن چھڑاؤ والی حکمت عملی پر کاربند رہی ہے داد دینی چاہئیے بالاکوٹ کے حوصلہ مند شہریوں کو جو آج بھی فالٹ لائن پر زندگی پوری تابندگی کے ساتھ گذار رہے ہیں بالاکوٹ پھر سے آباد ہوچکاہے جب بھی بالاکوٹ جائیں یہ شہر آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ملے گا اب توہوٹل انڈسٹری بھی خوب ترقی کرچکی ہے معیاری اور بہترین ہوٹل اور ریسٹورنٹ بن چکے ہیں وگرنہ اس سے قبل تو بالاکوٹ عملی طور پر ایک قصبہ ہی تھا مگریہاں شہداء کے خون سے جو آبیاری ہوئی ہے اس نے یہاں کے لوگوں کو ایک بارپھر زندگی کی دوڑ کو تیز سے تیز کرنے میں اہم کردار اداکیاہے بالاکوٹ شہدا ء کی سرزمین ہے دوسو برس قبل کے شہدائے معرکہ بالاکوٹ سے لے کر حال کے شہدائے زلزلہ تک بالاکوٹ نے قربانی کی شاندار مثالیں قائم کی ہیں ایسے میں پھراس شہر کے اسلام پسند باشندوں کے خلاف گھٹیا نوعیت کی باتیں کرنے والوں کی مذمت کی جانی چاہئے‘ یہ کہناکہ زلزلہ یہاں کے لوگوں کے اعمال کانتیجہ تھا‘جہالت اوربے خبری کی انتہاء ہے یہ تو وہ علاقہ ہے جو تحریک مجاہدین کے لئے آخری پناہ گاہ ثابت ہواتھا زلزلے سے قبل تو بالاکوٹ میں ٹھہرنے تک کے لئے ڈھنگ کا کوئی ہوٹل تک نہ تھا سیاح یہاں کچھ دیر قیام کرکے آگے نکل جایا کرتے تھے یہاں کے لوگ ہر دور میں مذہب اورروایات کے پابندرہے ہیں یہ غیر ت ایمانی سے مالامال لوگ ہیں ہمارا اس شہر میں کتنے یہ دوستوں کے ساتھ خلوص اورپیاربھرا رشتہ قائم ہے چندہفتوں کے بعدضرور بالاکوٹ جانا ہوتاہے اورپہلے سے کہیں زیادہ گرمجوشی کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہاجاتاہے ان لوگوں نے جس بہادری کے ساتھ بچے کھچے کھنڈرات پر نئے بالاکوٹ کی تعمیر ممکن کردکھائی ہے یہ صرف انہی کاحوصلہ ہے اوران کے حوصلوں کی داد نہ دینا انصاف نہیں ہوگا آج کادن اہل بالاکوٹ کو سلام کرنے کادن ہے بلکہ خوداس تاریخی قصبہ کو سلام کا تاریخی لمحہ ہے بالاکوٹ کی بنیادوں میں شہداء کالہوہے اور یہ شہران ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔