ماہر فلکیات‘ مؤرخ‘ محقق اور مصنف ’مائیکل ایچ ہارٹ (پیدائش ستائیس اپریل اُنیس سو بتیس)‘ اپنی ایک منفرد تصنیف کے لئے شہرت رکھتے ہیں جس میں اُنہوں نے ’دنیا کے 100 انتہائی بااثر افراد‘ سے متعلق مختصر سوانحی خاکے تحریر کئے۔ 630 صفحات پر مشتمل مذکورہ کتاب کا پہلا ایڈیشن سال 1992ء میں ’سیٹاڈل پریس (کارل پبلشنگ گروپ)‘ نے امریکہ (نیویارک) سے شائع کیا جو سکرائبڈ (scribd.com) نامی ویب سائٹ سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کی جا سکتی ہے۔ مصنف اگرچہ مسلمان نہیں لیکن اُنہوں نے کتاب کے عنوان اور منتخب موضوع سے انصاف کرتے ہوئے پیغمبر اسلام‘ ذات ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی‘ اسم گرامی سرفہرست رکھا۔ انسان کے شعور‘ علم و آگاہی اور بیداری کا اظہار جس اعتراف حقیقت سے ہوتا ہے‘ وہ بسا اوقات دوسروں کے لئے مشعل راہ بن جاتی ہے اور یہی وجہ رہی کہ مذکورہ کتاب نے غیرمسلموں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مزید جاننے کی ترغیب دی اور یوں حضور سے آشنائی و شناسائی بڑھی اور محبت کے چراغ سے چراغ جلتے چلے گئے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کائنات کی ’بعد از خدا‘ عظیم ہستی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے اپنے قول و فعل سے ایسی عملی مثالیں قائم کیں کہ معاشرہ امن کا گہوارہ اور فلاحی ریاست میں تبدیل ہو گیا۔ وہ لوگ جو معمولی باتوں پر‘ ایک دوسرے سے اِختلاف اور سارا سال جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے‘ وہاں اخوت و بھائی چارہ عام ہوا اور اسلام لانے والے اپنی ذات پر دوسروں کی ذات اور اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینے لگے۔ کیا معاشرت کا یہ سیدھا سادا اصول آج کے اسلامی معاشروں کا خاصہ ہے؟ اگر نہیں تو اہل اسلام کو اُس گرانقدر ہستی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا‘ جن کا تعارف خالق کائنات نے قرآن کریم کی33 ویں سورہئ مبارکہ ’الاحزاب‘ کی 21 ویں آیت کریمہ میں کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ”بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسولؐ (کی صورت) بہترین نمونہ موجود ہے (بالخصوص) اُس (ذی شعور) کے لئے جو اللہ اور آخرت (یوم جزأ) کے دن کی امید رکھتا (رکھتی) ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہتا (رہتی) ہے۔“ اِس آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں پیروی کے لئے بہترین طریقے موجود ہیں‘ جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے جیسا کہ غزوہئ خندق کے موقع پر جن سنگین حالات کا سامنا تھا کہ کفارِ عرب اپنی بھرپورافرادی اور حَربی قوت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے اچانک نکل پڑے اور اِس حملے کو پَسپا کرنے کے لئے جس تیاری اور جن تکنیکی و افرادی وسائل کی ضرورت تھی وہ بہت کم تھے۔ خوراک کی قلت الگ سے تھی اُور مسلمانوں کو کئی کئی دن تک فاقہ کرنا پڑتا تھا‘ عین اُس وقت مدینہ منورہ کے یہودیوں نے مسلمانوں سے اپنی دوستی (تحفظ و حمایت) کا معاہدہ توڑ دیا جس کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے۔ اِن حالات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدم قدم پر جانثار صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم کے شانہ بشانہ رہے اور جب خندق کھودنے کا موقع آیا تو کھدائی کے عمل میں خود بھی شرکت فرمائی۔ خوراک کی قلت میں خود بھی فاقہ کشی برداشت فرمائی۔ اگر صحابہئ کرام رضی اللہ عنہم نے فاقے کی تکلیف سے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو سیّد العالَمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک شکم پر 2 پتھر باندھے ہوئے نظر آئے۔ صبر و اِستقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ جنگ میں ثابت قدمی اور شجاعت دکھائی۔ سختیوں کا صبر وہمت سے مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفار کے لشکروں کو شکست دی۔ ان تمام چیزوں کے پیش ِنظر مسلمانوں کو مخاطب فرمایا گیا کہ ”تمہیں چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی پیروی کرو اور یہ بات (صرف) وہی مانے گا جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف‘ اللہ تعالیٰ کی یاد‘ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اُمید اور قیامت کے دن کی دہشت موجود ہوگی۔“قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہئ حشر کی 7ویں آیت کریمہ میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ”اور رسولؐ جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں لے لو اور جس (کام) سے منع فرمائیں (اُس کے کرنے سے) باز رہو اور اللہ سے ڈرو‘ بیشک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔“ سورہئ آل عمران (13ویں آیت کریمہ) میں ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اے حبیب! فرما دیجئے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ‘ اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ معلوم ہوا کہ حقیقی کامیاب زندگی وہی ہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش ِقدم پر ہو‘ اگر جینا مرنا‘ سونا جاگنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو سب کام (ہر دنیاوی کام بھی) ”عبادت“ میں شمار ہونے لگے گا۔ ولادت ِپاک حضور پُرنور (میلاد النبی) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باسعادت و پروقار موقع (بارہ ربیع الاوّل المعروف ربیع النور کے دن) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن اِس دعا کے ساتھ عمل سیرت ِمبارکہ پر عمل پیرا ہونے کو زندگی کا اَوّلین مقصد بناتے ہوئے اُن اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے طرزعمل کو بھی دیکھنا چاہئے جن کے لئے تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَقوال‘ اَفعال اور اَحوال کی پیروی کرنے سے زیادہ کوئی دوسرا عمل پسندیدہ نہیں تھا۔ عبادات‘ معاملات‘ اَخلاقیات‘ سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں‘ الغرض زندگی کے ہر شعبہ اور ہر پہلو کے اعتبار سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی اور سیرت میں ’کامل نمونہ‘ موجود ہے لہٰذا ہر ایک کو اور بالخصوص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اَقوال و اَفعال اور اَخلاق و احوال میں سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں اور جملہ معمولات و معاملات میں رہبر و رہنما مصطفی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کریں۔ ”شعور لایا کتاب لایا: وہ حشر تک کا نصاب لایا: دیا بھی کامل نظام اُس نے: اور آپ ہی انقلاب لایا: وہ علم کی اور عمل کی حد بھی: اَزل بھی اُس کا ہے اور اَبد بھی: وہ ہر زمانے کا راہبر ہے…… مرا پیمبرؐ عظیم تر ہے (مظفر وارثی)۔“